وہ ”سب سے پہلے امریکہ” اور ”لا متناہی جنگوں کے خاتمے” کے نعروں سے اقتدار میں پہنچا
ہم لا متناہی جنگوں کے دور کا خاتمہ کرنے جا رہے ہیں
اس کی جگہ، امریکہ کے ناگزیر مفادات کے دفاع پر نئی شفاف توجہ لے گی
دور دراز کے خطوں میں قدیمی تنازعات کا حل آپ فوجوں کی ذمہ داری نہیں ہے
وہ جن کے بارے بہت سے لوگوں نے سنا تک نہیں
ہم دنیا کے پولیس مین نہیں ہیں!
لیکن عملی طور پر اس نے نہ صرف (امریکی) سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کیا
بلکہ ایرانی جوہری معاہدے (JCPOA) سے دستبردار ہوتے ہوئے
(ایران کے خلاف) سخت ترین پابندیاں بھی عائد کر دیں
یہ فیصلے؛ قبل ازیں کہ امریکی قرار پاتے،
ایک دوسرے لیڈر کی دلی خواہشات کی طویل فہرست پر مشتمل تھے
کیسے ایک جنگ مخالف لیڈر ایک ایسی لڑائی میں صف اول کا سپاہی بن گیا
جو اس کی تھی ہی نہیں؟
اس اثر و رسوخ کو سمجھنے کے لئے پہلے
واشنگٹن کے وسط میں موجود طاقتور (صہیونی) مشین کو دیکھنا ہو گا
ایک ایسی مشین کہ جس نے لابیوں، مہموں، عطیات اور میڈیا پریشر کے ذریعے
اسرائیل کے حق میں ایک طاقتور دو جماعتی اتفاق رائے پیدا کر رکھا ہے
ہر صدر، ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹ، اچھی طرح سے جانتا ہے کہ
اس پالیسی کی مخالفت کی سیاسی قیمت انتہائی زیادہ ہے
بائیڈن نے اس مشین کو گلے سے لگایا اور ٹرمپ انتظامیہ نے بھی عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس مشین کا رستہ روک نہیں سکتی
اور یہی مشین، آج، غزہ میں نسل کشی کے تسلسل اور ایران کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کا راستہ ہموار کرنے کے لئے ضروری ماحول فراہم کر رہی ہے
نیتن یاہو جان گیا کہ ٹرمپ ”وراثت چھوڑنے” اور ”تاریخی معاملوں” کا بھوکا ہے
لہذا اس نے اپنی مرضی کی پالیسی کو نہ ”اسرائیلی مطالبات” بلکہ ”امریکہ” اور ذاتی طور پر ”ٹرمپ” کی عظمت کے لئے تاریخی مواقع کے روپ میں پیش کیا
یروشلم کو تسلیم کئے جانے کو ”صدی کا معاملہ” اور ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری کو ”برے معاہدوں کے خلاف جرأت مندانہ اقدام” قرار دیا گیا
میں نے عزم کر لیا ہے کہ یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے
مزیدبرآں، شدید دباؤ، ایک مشترکہ دشمن بنانے اور اسے دیو ثابت کرنا تھا، یعنی ایران
ایران کو مسلسل، نہ صرف صہیونی رژیم بلکہ پوری مغربی دنیا کے لئے بھی،
ایک ”وجودی خطرہ” ظاہر کرتے ہوئے نیتن یاہو نے ایک ذہنیت تخلیق کی
ایک ایسی ذہنیت کہ جس میں، ایران کے خلاف اٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم
نہ صرف ”معقول” بلکہ ”ضروری” بھی نظر آتا ہے
ایران کو”پرامن طریقےسے”جوہری بموں کےحصول سے روکنےکا صرف ایک ہی راستہ ہے
اور وہ ایران کے ”جوہری ہتھیاروں کے پروگرام” پر ایک واضح ”سرخ لکیر” لگانا ہے
واشنگٹن کے لئے اس کھیل کی قیمت
ٹیکس دہندگان کی جیب سے آنے والے اربوں ڈالروں سے بھی کہیں زیادہ تھی
البتہ اس کی حقیقی قیمت
ایک عالمی جنگی مجرم کی سیاسی بقاء کے لئے امن و امان کو قربان کر دینا تھی
یہ داستان ظاہر کرتی ہے کہ کبھی طاقت اس شخص کے ہاتھ میں نہیں ہوتی کہ جو زیادہ اونچی آواز میں دھاڑتا ہے
بلکہ اس شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ
جو یہ جانتا ہے کہ درست کانوں میں درست الفاظ کی سرگوشی کیسے کرنی ہے!
جب تک یہ ڈھانچہ باقى رہے گا؛
ممکن ہے کہ وائٹ ہاؤس میں نام تو بدلتے رہیں لیکن امریکی پالیسی ہرگز نہیں!