curruption.jpg

مالی کرپشن اور اقربا پروری جیسے امراض اب ہمارے معاشرے میں اتنے زیادہ سرائیت کرگئے ہیں کہ اب یوں لگتا ہے کہ کوئی معجزہ ہی ہمیں ان امراض سے چھٹکارا دلا سکے گا۔
ہمیں داد دینی پڑے گی قائد اعظم محمد علی جناح کو، جنہوں نے شروع میں ہی ان امراض کو بھانپ لیا تھا اور اس قوم کو 11 اگست 1947 کو جو اولین نصیحت کی تھی وہ بھی انہی امراض سے دور رہنے کی تھی۔ تاہم گزرے عشروں میں جس طرح وطن عزیز میں متروکہ املاک کی لوٹ مار، رشوت ستانی، سرکاری وسائل کا غیر قانونی اور لامحدود استعمال نے اقربا پروری کی انتہائی شکل اختیار کرلی ہے، ان برائیوں کو اب ہمارے معاشرے میں بری نظر سے نہی دیکھا جارہا بلکہ خوفناک صورتحال یہ ہے کہ آج کرپشن کو ہمارے معاشرے نے دل سے قبول کرلیا ہے۔
کرپشن کو معاشرے نے نہ صرف قبول کرلیا ہے بلکہ معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس کرپشن کے فضائل بھی بتاتا ہے، جبکہ ایک طبقہ ایسا ہے جو اسے ایک ناسور سمجھتا ہے اور مجبوری کے تحت بوقت ضرورت اس کڑوی گولی کو اپنے مکتب فکر کے مولوی سے فتویٰ لے کر نگل لیتا ہے۔ جس معاشرے میں جزا اور سزا کا تصور ختم ہوجائے اس معاشرے میں کرپشن جیسا ناسور ہی جنم لیتا ہے۔
اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو نوے کی تاریک دہائی سے شروع ہونے والے عہد زوال سے قبل کا معاشرہ قدرے محفوظ تھا اور کرپشن کے میگا اسکینڈل یوں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ہر ادارہ اس لعنت کی گرفت میں ہے۔ آج وطن عزیزکے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ہر بڑا افسر، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، اس ملک سے جلد از جلد پیسہ کما کر باہر جانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ آج کے پاکستان میں افسران کی بڑی تعداد بیرون ملک شفٹ ہوچکی ہے اور ساتھ ہی وہ اپنے ساتھ اثرورسوخ سے حاصل کردہ ناجائز دولت کو بیرون ملک منتقل کرچکے ہیں۔
آزادی کے بعد تقریباً چار دہائیوں تک پاکستان کے حکمرانوں کی بیرون ملک بیش قیمت جائیدادوں کا سراغ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔ لیکن آج صورتحال برعکس ہے۔ آج اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ جن حکمرانوں نے اس ملک سے اس ناسور کو ختم کرنا تھا وہ خود اُس ناسورکے مریض ہوگئے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری ادارے آج بھی انیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔
ایک سابق وزیراعظم کا ٹی وی پر یہ بیان کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے آدھے سے زیادہ ممبران صرف پیسے دے کر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں، یہ اس ملک کےلیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب لوگ صرف پیسے کے بل بوتے پر حکومتوں میں شامل ہوں گے تو نتیجتاً وہ اپنے منظور نظر افراد کو ہی اہم عہدوں پر تعینات کروائیں گے اور مالی بدعنوانیوں میں بھی ملوث ہوں گے۔ آج ہمارا معاشرہ اس حد تک گرگیا ہے کہ ایک علاقے کا ایس ایچ او بھی اپنی پوسٹنگ پیسے دے کر یا پھر سفارش پر کرواتا ہے۔
میرے ایک دوست جو سرکاری ادارے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ اب اس قوم نے کرپشن کے بھی جدید طریقے ڈھونڈ لیے ہیں، جس کی وجہ سے مجرم تک پہنچنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مثال کے طور پر اگر ادارے نے 100 روپے کا چیک ریلیز کیا تو چیک لینے والا ٹھیکیدار اس 100 روپے کو تقریباً 50 مختلف لوگوں کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرتا ہے اور پھر ان 50 بینکوں سے وہ پیسہ دنیا کے دوسرے ممالک کے خفیہ بینک اکاؤنٹس میں شفٹ ہوجاتا ہے۔ اس ملک کے ساتھ جو سلوک آمروں اور حکمرانوں نے کیا ہے اس کے نتائج اب یہ ہیں کہ آج ان حکمرانوں کی بیرون ملک جائیدادیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ آج پاکستان کا کوئی ادارہ یا عدالت ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود انہیں قانون کی گرفت میں نہیں لاسکتا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تازہ عالمی سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن سرکاری محکموں میں ہوتی ہے، جوکہ کمزور حکمرانی کے ڈھانچے، سیاسی سرپرستی اور کڑے احتساب کی کمی کی وجہ سے بڑھی ہے۔ مسئلہ صرف حکمرانوں تک محدود نہیں بلکہ آج کرپشن ہر شعبے میں اور ہر طبقے میں سرائیت کرگئی ہے اور موجودہ نظام اس طبقے کو، جو اس سے مستفید ہورہا ہے ان کی دولت اور جائیدادوں کا محافظ ہے، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافے میں مددگار بھی ہے۔
ایک ایماندار افسر اگر کسی ادارے میں آجائے تو امکان یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اس راہ پر لگادے لیکن اگر کسی کرپٹ شخص کو کسی ادارے میں پیر رکھنے کی بھی جگہ مل جائے تو وہ اُس ادارے کی ہری بھری کھیتی اجاڑ دیتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ کسی ایماندار یا کرپٹ شخص کا نہیں بلکہ وجۂ تباہی ہمارا موجودہ ملک گیر نظام ہے، جو کہ دیمک زدہ ہوچکا ہے اور یہ دیمک ملک کے تقریباً ہر ادارے کو کھوکھلا کرچکی ہے۔ جب میرٹ کا قتل ہوجائے تو ہم جیسے معاشرے ہی وجود میں آتے ہیں۔ ایک طبقے کے لیے یہ کرپشن ناسور نہیں ہے بلکہ ان کے لیے نعمت ہے، جس کے فضائل اس ناسور سے مستفید لوگ بہت بہتر طریقے اور میٹھے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ کرپٹ عناصرانتہائی میٹھے اور بااخلاق ہوتے ہیں، کیونکہ بداخلاقی اور کڑواہٹ وہ افورڈ ہی نہیں کرسکتے، اس سے بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے۔ کرپشن سے بنایا گیا پیسہ یہ افراد خود بھی رج کر کھارہے ہیں اور انتہائی ایمانداری سے دوسروں کو بھی اس سے مستفید کراتے ہیں تاکہ یہ ہمنوا بڑے صاحب کو جو کرپشن کے آفتاب و مہتاب ہیں، خوب سپورٹ کرسکیں۔
کرپشن کے پیسے سے حاصل کی گئی طاقت کا نشہ جب چڑھتا ہے تو باقی تمام نشے پھیکے پڑجاتے ہیں۔ آج وطنِ عزیز کو 75 سال ہونے کو آئے مگر افسوس کہ اس ناسور کی وجہ سے ہمارا معاشرہ لوٹ مار کا مرکز بن کررہ گیا ہے، جس میں جس کے ہاتھ میں جو آرہا ہے وہ تیزی سے اُسے لوٹ رہا ہے۔ جس کا ایک سنگین نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم پہلے بھی غلام تھے اور آج بھی غلام۔
آج اس موذی مرض نے وطن عزیز کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ہماری صنعت بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ زراعت سمیت تمام بڑے گورنمنٹ کے ادارے آج سبسڈی کی آکسیجن پر زندہ ہیں۔ ہماری بیورو کریسی اور افسران نے دیانتداری سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ لوگ اپنی سروس کو ایک استحقاق سمجھتے ہیں اور لوٹ مار کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایسے تمام افسران نے سرائیکی کی یہ مثال سن رکھی ہے کہ ’’کم جوان دی موت اے‘‘۔ اس فرسودہ نظام کا سب سے اہم ستون یعنی عدالتیں آج حقیقت معلوم ہونے کے باوجود انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کا عدالتی نظام انتہائی ناقص ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز میں اتنی بدامنی، افراتفری اور انتشار پھیلا ہوا ہے۔ میری ناقص رائے میں اگر صرف عدالتی نظام درست ہوجائے تو
باقی سب خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے