فلسطین کے عظیم شہید… حاج رمضان!

💠 فلسطین کے عظیم شہید… حاج رمضان!
🔹️یہ عنوان، وہ سرخی ہے جو حماس نے سپاہ قدس کی فلسطینی شاخ کے سربراہ، سردار سعید ایزدی (معروف بہ حاج رمضان) کی شہادت پر تعزیتی بیان کے پوسٹر کے لیے چنی۔ "شہیدِ فلسطین” کا لقب اس عظیم کمانڈر کو دینا، اس کی قدر و منزلت اور محورِ مقاومت میں اس کی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔
🔹️شاید کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین اور محور مقاومت سے دلچسپی رکھنے والے اکثر افراد بھی 31 خرداد (مطابق 20 جون) تک — جب صہیونی وزیر جنگ "یواف گالانت” نے قم شہر میں ان کے کامیاب قتل کی خبر دی — اس شخصیت سے ناواقف تھے؛ ایسی شخصیت جو اپنی انتہائی رازداری اور حفاظتی اصولوں کے سبب گمنام رہتے ہوئے تقریباً دو دہائیوں تک اسلامی جمہوریہ ایران میں فلسطین و مقاومت سے متعلق فیصلوں کا اہم رہنما رہی۔
🔹️حاج رمضان، جنہوں نے تین دہائیوں تک لبنان میں جہادی خدمات انجام دیں اور حالیہ مہینوں میں ایران واپس آئے تھے، ان گمنام مگر عظیم مجاہدین کی زندہ مثال ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلا، مگر ان کی شہادت تک شاید ہی کوئی انہیں جانتا ہو۔
🔹️صہیونی فوج نے اپنے سرکاری بیان میں سردار ایزدی کے قتل کا اعلان کرتے ہوئے انہیں یوں معرفی کیا:
"انہیں طویل انٹیلیجنس کوششوں کے بعد قتل کیا گیا۔ وہ سپاہ پاسداران ایران اور حماس کے اہم عناصر کے درمیان فوجی رابطہ کار تھے۔ وہ ایران کی طرف سے حماس کی مالی امداد بڑھانے کے ذمہ دار تھے اور مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی تنظیموں سے براہ راست رابطے میں تھے۔ وہ 7 اکتوبر کے حملے کے معماروں میں شامل تھے اور چند لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں اس حملے کا پیشگی علم تھا۔ وہ ان چند مرکزی افراد میں سے تھے جو اسرائیل کی نابودی کے لیے ایران کے عملی منصوبے کو آگے بڑھا رہے تھے۔”
🔹️حاج رمضان کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ان کا فلسطینی قوم، ان کی تنظیموں، اور مزاحمتی جدوجہد پر ایمان تھا۔ فلسطینی گروہوں کے تعزیتی بیانات ان کے اس خلوص اور مسلسل تعلق کی گواہی دیتے ہیں۔
🔹️اسلامی جہاد کے بیان میں آیا ہے:
"شہید ایزدی نے اپنی بھرپور زندگی فلسطینی عوام اور خطے کی مزاحمتی تحریکوں کی ہمہ جہت حمایت کے لیے وقف کی۔ ان کی اسٹریٹجک بصیرت، مضبوط ارادہ اور جہادی روح نے مزاحمت کی تقویت میں کلیدی کردار ادا کیا۔”
🔹️حماس کے بیان میں کہا گیا:
"یہ شہید رہنما مزاحمتی تحریکوں کے لیے ستون کی مانند تھے۔”
یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے مزاحمتی تنظیموں کی توانمندی اور مسلسل تعاون پر بہت زور دیا۔
🔹️کتائب القسام (حماس کا عسکری ونگ) کے بیان میں کہا گیا:
"رمضان براہ راست فلسطینی مزاحمتی قیادت کے ساتھ، خاص طور پر حماس اور القسام بریگیڈ کے ساتھ رابطے کے ذمہ دار تھے۔ وہ صہیونیت کے خلاف صف شہداء میں شامل ہو گئے۔ وہ بے نظیر قائد، انتہائی مؤثر اور مقدس ذمہ داری کے حامل شخص تھے۔ انہوں نے مزاحمت کی پکار پر لبیک کہا، اس کی قیادت سے براہ راست تعامل کیا اور سالہا سال اپنی تمام تر صلاحیتیں ان کی مدد کے لیے وقف رکھیں۔ انہوں نے مجاہدین کی امیدیں اور فکریں ایرانی بھائیوں تک پہنچائیں۔”
🔹️شاید تل ابیب کے وزیر جنگ "کاتز” نے حاج رمضان کے بارے میں سب سے درست جملہ کہا، جب اس نے کہا:
"سعید ایزدی کا قتل 7 اکتوبر کے بعد اس جنگ کا ایک اہم موڑ ہے۔”
وہ (صہیونی) بہتر جانتے ہیں کہ انہوں نے محور مقاومت سے کس قدر اہم شخصیت کو چھینا ہے — مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی راہ، ان کا طریق، ان کا تصور مزاحمت ہمیشہ زندہ رہے گا، اور ان کا راستہ مزید مجاہدین کے لیے چراغ بنے گا۔
🔹️حاج رمضان کی ایک اور نمایاں خصوصیت ان کا فلسطینی اسلام پسند تحریکوں بالخصوص حماس کے ساتھ عقیدتی و عملی اتحاد تھا۔
یہ مشہور تھا کہ:
"ایران میں حماس کو کسی نمائندے کی ضرورت نہیں، کیونکہ رمضان ہی کافی ہے۔”
باوجود اس کے کہ حماس اور ایران کے درمیان (خصوصاً شام کے بحران کے وقت) بعض کشیدگیاں پیدا ہوئیں، حاج قاسم سلیمانی کی حمایت سے سردار ایزدی نے ان اختلافات کو سنبھالا اور تعلقات کو دشمن (صہیونی ریاست) کے خلاف اتحاد سے منحرف نہیں ہونے دیا۔
شیعہ و سنی اختلافات اور دیگر حساس مسائل میں ان کی بصیرت، میدان میں مہارت اور حکمتِ عملی بھی نمایاں تھی۔
🔹️دورن کادوش، صہیونی فوجی ریڈیو کی رپورٹر، کہتی ہے:
"ایرانی جنرل سعید ایزدی نے حماس کی جنگی بحالی کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد بھی، ایزدی ان کے بھائی محمد سنوار کے ساتھ حماس کی بحالی اور اسلحہ فراہمی کے معاملات میں رابطے میں تھے۔”
اللہ ان کی روح پر رحمت نازل کرے، ان کی یاد کو زندہ رکھے، اور ان کے راستے کو زندہ دلوں کے لیے نشانِ منزل بنائے۔