جو جاپان نہ کر سکا؛ چین کر پائے گا؟

🔴 جو کام جاپان نہ کر سکا، کیا چین کر پائے گا؟
🔻امریکہ اور جاپان کے درمیان جنگ کو اکثر لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ یہ صرف دوسری جنگ عظیم میں ہوئی، لیکن اگر آپ "جاپان” کے موضوع پر تحقیق کریں تو ایسی تحریریں اور رپورٹس ملتی ہیں جو یہ واضح کرتی ہیں کہ امریکہ نے جاپان کے ساتھ کیسا سلوک کیا، اور یہ رویہ آج بھی ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ امریکی رویے میں جھلکتا ہے۔ درحقیقت، امریکہ کی جاپان کے خلاف ایک پالیسی تقریباً ۸۰ سال تک جاری رہی اور بالآخر ایک ایسی جنگ میں منتج ہوئی جس میں امریکہ نے جاپان کو باضابطہ طور پر تسلیم کروا کر اس پر قبضہ کر لیا۔
🔻یہ جنگ دراصل اُس وقت شروع ہوئی جب امریکی جنرل میتھیو پیری کے بحری بیڑے نے ۱۸۵۳ء میں جاپان کے ساحلوں پر گولہ باری کی، اور یہ تصادم تقریباً ایک صدی تک جاری رہا۔ جاپان، جو خود ایک نوآبادیاتی طاقت بننے کی کوشش کر رہا تھا، امریکہ جیسے ابھرتے ہوئے نوآبادیاتی طاقت کے سامنے بالآخر شکست کھا گیا۔ امریکہ اور جاپان کے درمیان زیادہ تر جنگیں بحرالکاہل اور اس کے جزائر پر لڑی گئیں، اور ان جنگوں کو تاریخ کی سب سے بڑی بحری لڑائیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے جاپانی بحریہ کے پرل ہاربر پر حملے سے لے کر ایٹم بم گرانے اور جاپان کی مکمل تسلیم تک صرف چند سالوں میں یہ سب حاصل کر لیا تھا…
اگر ہم جاپان اور امریکہ کے تعلقات کا انیسویں صدی کے آخر سے لے کر دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے آغاز تک مطالعہ کریں تو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے: دونوں کے درمیان اصل تنازعہ زمین پر قبضے کا نہیں بلکہ تجارت کا تھا۔ جاپان، جو ایک تیزی سے ترقی کرتا ملک تھا، قدرتی وسائل، خاص طور پر تیل کی شدید قلت کا شکار تھا اور اسی ضرورت کے تحت اس نے برما (موجودہ میانمار) پر حملہ کیا۔ امریکہ بھی اس حقیقت کو خوب سمجھتا تھا۔ تجارت اور وسائل پر یہ مقابلہ بالآخر ایک خونریز جنگ میں بدل گیا، جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
🔻لیکن بحرالکاہل اور اس کے جزائر وہ مقام نہیں تھا جہاں امریکہ مطمئن ہو سکے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کی کشمکش نے بحرالکاہل کے سواحل اور جزائر میں کئی خونریز جھڑپوں کو جنم دیا۔ سوویت یونین کے زوال نے اگرچہ وقتی طور پر امریکہ کو سکون دیا اور اسے مغربی ایشیا میں الجھنے کا موقع ملا، لیکن جلد ہی بحرالکاہل کی صورتحال نے پھر سے امریکہ کو پریشان کر دیا۔ اس بار جاپان کی جگہ چین، جو اب ایک "جاگتا ہوا اژدہا” بن چکا تھا، میدان میں تھا، اور وہی وسائل چاہتا تھا جن کے لئے جاپان نے کبھی جدوجہد کی تھی۔
🔻چین آج بالکل ویسے ہی امریکہ کے ساتھ مقابلے میں اتر رہا ہے جیسے کبھی جاپان اترا تھا، اگرچہ چین کی ترقی اور پیش رفت کی نوعیت جاپان سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں ممالک کی جغرافیائی ضروریات اور وسائل کی کمی نے انہیں ایک جیسا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ چین بظاہر جاپان کے تجربے سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وقت کا تقاضا بھی شاید یہی ہے۔ ماضی میں جب جاپان نے جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر قبضہ جمایا تھا، تو اسے صرف ایک آزاد ریاست (تھائی لینڈ) کا سامنا تھا؛ باقی تمام علاقے نوآبادیات تھے۔
🔻آج صورتحال بالکل مختلف ہے۔ چین کو آزاد اور مضبوط ممالک جیسے انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن اور دیگر کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ جزائر سلیمان اور ملوک جیسے چھوٹے چھوٹے جزائر بھی اب خودمختار ریاستیں بن چکے ہیں۔ لہٰذا چین، جاپان کی طرح براہ راست قبضہ نہیں کر سکتا، بلکہ اسے ہوشیاری سے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے مزید سنجیدہ اور پیچیدہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے ۲۰۱۲ء میں اوباما حکومت کی "بحرالکاہل کی طرف واپسی” کی پالیسی سے پہلے، بحرالکاہل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تھی، سوائے جنوبی چینی سمندر اور اسپراتلی جزائر کے۔
🔻اب چین کا بنیادی مقصد ان علاقوں میں وسائل تک رسائی ہے، لیکن گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ براہ راست مقابلہ ہے۔ چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ خشکی کے راستوں کے علاوہ سمندری راستوں کے ذریعے بھی وسائل اور منڈیوں تک رسائی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چین اب اسی حکمت عملی کو بحرہند، بحرالکاہل اور ان کے وسیع و عریض جزائر پر بھی لاگو کر رہا ہے۔
🔻چین کی حکمت عملی میں تجارت، سلامتی اور فوجی اثر و رسوخ، تینوں کا امتزاج موجود ہے، جس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ایک تائیوانی تجزیہ کار کے مطابق: "چین کا مقصد خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا اور امریکہ کی قیادت میں قائم روایتی اتحادوں (جیسے جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ) کو چیلنج کرنا ہے تاکہ یہ ممالک اپنی سیکیورٹی شراکت داریوں پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہو جائیں، اور یہ صورت حال چین کے مفاد میں ہو گی۔”
🔻چین کی بحرالکاہل میں سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ تائیوان کے دفاعی محقق "دومینگو آئی-کوی یانگ” کے مطابق چین نے بحرالکاہل میں واقع ۱۱ جزیرہ نما ممالک میں ۳۹ اسٹریٹجک سرگرمیاں انجام دی ہیں، جو پورے خطے کے ۱۸ ممالک میں سے تقریباً دو تہائی پر محیط ہیں۔ ان منصوبوں میں ۲۶ ہوائی اڈے بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں، جن میں سے کم از کم ۱۲ ہوائی اڈے اتنے بڑے ہیں کہ چین کے سب سے بڑے ملٹری کارگو طیارے Y-20 کی میزبانی کر سکتے ہیں۔