اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی شانزے ملک ہٹ اینڈ رن کیس میں بری

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی صاحبزادی شانزے ملک کو ہائی پروفائل ہٹ اینڈ رن کیس میں بری کردیا، اس حادثے میں 2 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔رپورٹ کے مطابق فیصلہ جوڈیشل مجسٹریٹ عدنان یوسف نے سنایا جس نے شانزے ملک کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر بریت کی درخواست منظور کرلی۔شانزے ملک پر نجی فوڈ شاپ سیور فوڈز کے دو ویٹرز کو جان سے مارنے کا الزام تھا، جس کے بعد ان کے خلاف کہنہ پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے شانزے ملک کے حق میں فیصلہ سنانے سے قبل اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔شانزے ملک کے وکیل صدیق اعوان نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی کیونکہ استغاثہ کی پوری کہانی ثانوی حقائق پر مبنی ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ حادثے کے 11 دن بعد مقدمہ درج کیا گیا تھا اور پولیس تاخیر کی کوئی وضاحت نہیں دے سکی۔ انہوں نے دلیل دی کہ پولیس کوئی ویڈیو ثبوت پیش نہیں کرسکی اور عدالت میں جمع کرائی گئی تصاویر میں ان کے موکل کی واضح طور پر شناخت نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ شانزے ملک کو جولائی 2024 میں مدعی کے تاخیری بیان کے بعد ہی نامزد کیا گیا تھا۔قبل ازیں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ شانزے ملک کو دو سال سے زائد عرصے تک مفرور رہنے کے بعد ضمانت قبل از گرفتاری دے دی گئی ہے۔قانونی کارروائی میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 322 (تیز رفتاری یا لاپرواہی سے گاڑی چلانے سے موت) کو حذف کر دیا گیا، جو ایک غیر ضمانتی جرم ہے، اور اس کی جگہ دفعہ 320 (ارادے کے بغیر موت کا سبب بننا) کو شامل کیا گیا جو قابل ضمانت جرم ہے۔سول جج عدنان یوسف نے ٹریفک حادثے میں 2 افراد کی ہلاکت کے کیس میں نامزد شانزے ملک کی بریت کی درخواست پر سماعت کی۔
دوسری جانب مدعی کے وکیل طفیل شہزاد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ویڈیو شواہد سے واضح طور پر ملزم شانزے ملک کی شناخت ہوتی ہے اور فرانزک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ گاڑی ایک خاتون چلا رہی تھی۔مدعی رفاقت علی نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں اور دو گواہوں نے شانزے ملک کی شناخت کی ہے اور انہوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کیے ہیں جو ریکارڈ پر ہیں۔واضح رہے کہ 2022 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بیٹی کی جانب سے چلائی جانے والی اسپورٹس یوٹیلٹی وہیکل (ایس یو وی) نے آدھی رات کو ایکسپریس وے پر سوہن پل کے قریب سیور فوڈز میں کام کرنے والے دو افراد کو کچل دیا تھا اور اس معاملے کی تحقیقات تعطل کا شکار تھیں۔
عدالتی ریکارڈ میں دستیاب تفصیلات کے مطابق 8 جون کو شکیل تنولی اور ان کے ساتھی حسنین علی آدھی رات کو گھر جا رہے تھے، جب انہیں مبینہ طور پر ایک خاتون کی جانب سے چلائی جانے والی ایس یو وی نے ٹکر مار دی۔خاتون گاڑی چھوڑ کر فرار ہوگئی، پولیس نے گاڑی کو تحویل میں لے لیا جسے بعد ازاں جولائی 2024 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک افسر کو اس یقین دہانی پر دے دیا گیا کہ ’ضرورت پڑنے پر وہ گاڑی عدالت میں پیش کریں گے۔جولائی 2024 میں اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) علی ناصر رضوی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ ہٹ اینڈ رن کیس میں ملوث لاہور ہائی کورٹ کی لگژری گاڑی جس کی ٹکر سے 2 افراد ہلاک ہوئے تھے، اسے ایک خاتون چلا رہی تھی اور یہ جسٹس ملک شہزاد احمد کے زیر استعمال تھی جنہیں حال ہی میں سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی ہے۔