یو ایس ایڈ کے غیر ملکی پراجیکٹس کیوں بند ہوئے اور ان کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

US-9.jpg

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار اقتدار سنبھالتے ہی امریکی پالیسیوں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں، جس میں ان کی طرف سے یو ایس ایڈ پروگرام کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے دنیا بھر کے متعدد ممالک میں چلنے والے یو ایس ایڈ پروگرام بھی منجمد ہو گئے ہیں، ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے بعد پاکستان میں تقریباً 845 ملین ڈالرز سے زیادہ کے منصوبے منجمند ہو گئے ہیں، سینکڑوں پاکستانیوں کی نوکریاں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ نوکریوں کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اس امداد سے مستفید ہونے والے افراد کا ہوگا۔

پاکستان میں یو ایس ایڈ کے آپریشنز بند ہونے سے کیا اثر پڑے گا؟ کیا واقعی اس فنڈنگ سے مستفید ہونے والے افراد کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا؟ اس حوالے سے بصیر میڈیا نے بعض ماہرین سے رائے لی ہے۔ہمارے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا ہے کہ ایک کتاب کچھ عرصہ پہلے چھپی تھی، جس کا نام ’بیلٹ وے بینڈٹس‘ہے۔ جیسے پاکستان میں رنگ روڈ ہوتی ہے ایسے ہی ایک بیلٹ وے ہے جو واشنگٹن ڈی سی کے ارد گرد گھومتا ہے، یو ایس ایڈ کے 6 سے 7 بڑے کنسلٹنٹس دفاتر اس روڈ پر موجود ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے یہ تفصیل سے بتائی ہے کہ یو ایس ایڈ بیرون ممالک پر جتنا پیسہ خرچ کرتی ہے اس کا 60 سے 70 فیصد واپس امریکا چلا جاتا ہے، یہ اس کا ایک پہلو ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایلون مسک نے جو یو ایس ایڈ بند کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یو ایس ایڈ کے دفتر گیا اور وہاں سے زبردستی سارا ڈیٹا حاصل کیا، وہ ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ جن ممالک کو یو ایس ایڈ کی فنڈنگ دی گئی ہے، اس میں بہت بڑے پیمانے پر فراڈ ہوا ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے مزید کہا کہ اس میں پاکستان کے بھی 2 سے 3 بڑے پراجیکٹس کا ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سڑک کی تعمیر کے ایک پراجیکٹ میں یو ایس ایڈ نے 30 ملین ڈالر دیے تھے لیکن وہ سڑک آج تک نہیں بن سکی۔انہوں نے انکشاف کیا کہ یو ایس ایڈ کی جانب سے ایک فنڈ سیاسی جماعتوں کو دیا گیا تھاجو تقریباً ساڑھے 21 ملین ڈالر کا تھا۔ یہ رقم اس لیے دی گئی تھی تاکہ سیاستدانوں کو جمہوریت سکھائی جائے لیکن اس کا آوٹ پٹ بھی تقریباً زیرو ہے۔انہوں نے کہا کہ اس لیے یہ فنڈ بند ہونے سے عام پاکستانی کو کوئی نقصان ہوگا، کیونکہ یہ فنڈز پہلے بھی عوام تک نہیں پہنچ پائے، سب لوگ فراڈ کر کے بس پیسا کھاتے تھے جبکہ زمین پر کچھ موجود نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ اس سال 845 ملین ڈالر کے پراجیکٹس بند ہوئے ہیں، ’امریکا میں کانگریس نے یو ایس ایڈ کے آپریشنز پر ایک سماعت کی تھی، اس سماعت میں جن 3 ممالک کا ذکر کیا گیا ان میں پاکستان، ایران اور ہیٹی شامل تھے۔سماعت کے دوران ان تینوں ممالک کے حوالے سے کہا گیا کہ یو ایس ایڈ نے یہاں جو بھی پیسے خرچ کیے ہیں ان کا زمینی حقائق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ خود ہی یہ پیسا کھا جاتے ہیں‘۔

سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ یو ایس ایڈ کی فنڈنگ رکنے کے بعد اس کا منفی اثر ضرور پڑے گا کیونکہ پاکستان میں یو ایس ایڈ کی فنڈنگ زیادہ تر تعلیمی شعبے میں استعمال ہو رہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اب تو ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بھی بند کر دی گئی ہے اور اس کا اثر بھی پاکستان پر پڑےگا کیونکہ ڈبلیو ایچ او پولیو، معذور افراد وغیرہ کے لیے پاکستان میں کافی کام کر رہا تھا۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ پاکستان میں این جی اوز بالکل بھی خود کفیل نہیں ہیں، ان کا کام ہر طرح سے ڈونر پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے ان کا کام بھی متاثر ہوگا۔ان این جی اوز میں اب بے روزگاری بھی بڑھے گی۔انہوں نے کہا کہ این جی اوز سے لوگوں کی نوکریاں تو جائیں گی ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ اس سے مستفید ہو رہے تھے وہ بھی شدید متاثر ہوں گے۔ پبلک سیکٹر میں گورنمنٹ کی فنڈنگ اتنی کم ہے، بیرونی فنڈنگ سے جو تھوڑا بہت کام ہو رہا تھا اب وہ بھی نہیں ہو پائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ تو بالکل بھی این جی اوز کو ٹیک اوور نہیں کرے گی کیونکہ پاکستان میں این جی اوز سیکٹر کو چلانے والے غیر ملکی ڈونرز ہیں۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ گورنمنٹ این جی اوز کو کوئی سپورٹ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام پراجیکٹس کو دیکھے، جن پراجیکٹس کے لیے یو ایس فنڈنگ کر رہا تھا، اس حوالے سے ان این جی اوز کا تعین بھی کیا جائےاور ان کی کارکردگی کو دیکھا جائے۔ اور جو این جی اوز اچھا کام کر رہی ہیں، گورنمنٹ ان کو خود اپنی فنڈنگ کے ذریعے سپورٹ کرے۔این جی او سرچ فار کامن گراونڈز میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کے پاس صرف یو ایس ایڈ نہیں بلکہ مخلتف ڈونرز کے پراجیکٹس ہیں تاہم جس پراجیکٹ کے لیے وہ کام کر رہی تھیں وہ یو ایس ایڈ کا ہی تھا۔

انہوں نے بتایا کہ فی الحال ان کے پراجیکٹ کی تمام تر سرگرمیاں 90 روز کے لیے معطل ہو گئی ہیں۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو اس پراجیکٹ کے ساتھ براہ راست جڑے ہوئے تھے ان سب افراد کو فی الحال نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ باقی ڈونرز کے تمام پراجیکٹس پر کام جاری ہے، صرف اور صرف یو ایس ایڈ کے پراجیکٹس کا کام روک دیا گیا ہے۔ کام کو روک دینے کا آرڈر بھی یو ایس ایڈ کی جانب سے آیا تھا۔ اس لیے 90 روز کے لیے تمام سرگرمیوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی معلوم نہیں کہ آیا امریکی حکومت یو ایس ایڈ کے ان پراجیکٹس کو دوبارہ سے فعال کرے گی یا نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا یو ایس ایڈ کی فنڈنگ سے مستفید ہونے والے افراد کو بھی اطلاع کر دی گئی ہے کہ یہ تمام پراجیکٹس عارضی طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان تمام مستحق افراد کو کہہ دیا جانا چاہیے کہ آپ کو جو فنڈز مل رہے تھےاب وہ نہیں ملیں گے کیونکہ اگر ان کے لیے مقامی سطح پر بھی فنڈز اکھٹے کرنا چاہیں تو بھی ایسا ممکن نہیں ہے کہ اتنے فنڈز اکھٹے ہو سکیں، امید ہے کہ 90 روز میں چیزیں مزید واضح ہو جائیں گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے