عمران خان کی زرمبادلہ پاکستان نہ بھیجنے کی کال ناکام کیوں؟
سابق وزیر اعظم اور بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بار پھر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ملک میں ترسیلات زر نہ بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔عمران خان کی جانب سے ایکس پیغام میں کہا گیا ہے کہ’اوورسیز پاکستانیوں سے ایک بار پھر مطالبہ کرتا ہوں کہ ترسیلات زر کا بائیکاٹ جاری رکھیں کیوں کہ اس حکومت نے سوائے جمہوری اقدار کی پامالی کے کچھ نہیں کیا لہٰذا ان کو ترسیلات زر بھیجنا ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے‘۔
واضح رہے کہ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا پیسہ بھجوانا پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس سے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملتا ہے اور معیشت کو مستحکم بنانے میں مدد ملتی ہے۔اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں جاری مالی سال کے دوران 2.37 ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جاری مالی سال کے آغاز سے دسمبر کے مہینے تک اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ ذخائر میں2.464 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ بینکوں کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر میں 89 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی عمران خان کی جانب سے اوورسیز سے ملک میں ترسیلات زر نہ بھیجنے کی اپیل کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود ترسیلات زر میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔
عمران خان کی کال کی ناکامی کی وجہ کیا ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معاشی ماہر راجہ کامران کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداوشمار سے واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماہانہ بنیادوں پر دیکھیں توزر مبادلہ کے ذخائر میں 5.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔راجہ کامران نے کہا کہ ملک میں زر مبدلہ اس لیے آتا ہے کہ بیرونی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کش اپنے گھر والوں کے لیے بینکاری ذرائع سے رقوم بھیجتے ہیں تاکہ وہ اپنے ماہانہ اخراجات پورے کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ اگر بیرون ممالک مقیم پاکستانی زر مبادلہ بھیجنا چھوڑ دیں تو ان کے گھر والے مالی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں ان لوگوں کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ یہاں اپنے والدین یا بیوی بچوں کے لیے خرچہ نہ بھیجیں کیوں وہ اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہی کمانے گئے ہیں۔
راجہ کامران نے کہا کہ زر مبادلہ بھیجنے کے بھی 2 طریقے ہیں جن میں ایک قانونی اور دوسرا ہنڈی کا ہے لیکن دوسرے والے طریقے کے خلاف دنیا بھر میں سختی بڑھ چکی ہے اور پکڑے جانے پر بیرون ملک اور پاکستان میں بھی سخت سزا ملتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس لیے عمران خان کی اپیل پر پاکستانی اتنا دھیان نہیں دیں گے کیوں کہ پاکستان کے عوام حکومت کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوں وہ ریاست کے ساتھ ہی کھڑے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویسے بھی اپنے گھر والوں کو پیسہ پاکستان بھیجنا بیرونی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے لیے ناگزیر ہے اور ترسیلات زر نہ بھیجنے کی اپیل خواہ عمران خان کریں یا کوئی اور لیڈر لوگ اس پر عمل نہیں کرسکتے۔معاشی ماہر مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر لوگوں کا سیاسی جھکاؤ تو کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہو سکتا ہے لیکن اوورسیز پاکستانی اپنے عزیزو اقارب کو چھوڑ کر بیرونی ممالک میں مقیم ہیں اور انہیں ہی اپنے رشتے داروں کی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اوورسیز پاکستانی پیسے بھیجنے کا بائیکاٹ کریں گے یا پھر کسی اور چینل کے ذریعے بھیجنا شروع کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایسی کالز ماضی میں بھی دیتے رہے ہیں، سنہ 2014 میں بھی ان کی جانب سے ایسی کال دی گئی تھی جو ناکام ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ کالز کے باوجود دسمبر میں بھی ریکارڈ زر مبادلہ آیا اور عمران خان کی اپیل ناکام ثابت ہوئی جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اس لیے گھر کا کوئی بھی فرد جب بیرون ملک جاتا ہے تو اس کے گھر والوں کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ اسی کی کمائی پر منحصر ہوتا ہے اس لیے ایسی کال پر عمل ہونا ناممکن ہے۔معاشی تجزیہ کار عابد سلہری کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حالیہ کال بھی ناکام ہی رہے گی کیونکہ پاکستان نے رقوم کی منتقلی کے نظام کو بہت بہتر بنا لیا ہے اور کافی سختی بھی کردی ہے۔عابد سلہری نے کہا کہ مغربی ممالک میں بھی دستاویزات کے علاوہ رقم بھیجنا اب بالکل بھی آسان نہیں رہا کیونکہ لوگ سیونگز کے لیے رقم نہیں بھیجتے بلکہ اپنے عزیزو اقارب کے لیے اور پاکستان میں صدقہ خیرات کے لیے پیسے بھیجتے ہیں اس لیے ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ پاکستان رقم منتقل نہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس اب قانونی طور پر پیسے بھیجنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا آپشن بھی موجود نہیں ہے۔