نہرو ” جناح ” پاکستان انڈیا کنفیڈریشن اور مسلہ کشمیر
جواہر لال نہرو آزادی کے بعد مسلسل 17 سال تک انڈیا کے وزیراعظم رہے۔ آج بہت سے مورخین تقسیم ہندوستان کو جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کی ہٹ دھرمی قرار دیتے ہیں۔ ان مؤرخین میں مولانا ابوالکلام آزاد اور سابق انڈین وزیر خارجہ جسونت سنگھ بھی شامل ہیں۔یہ بات بھی حیران کن ہے کہ وہی جواہر لال نہرو جن کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا انہی نے مرنے سے دو سال پہلے ایک بار پھر پاکستان انڈیا کنفیڈریشن کی خواہش ظاہر کی تھی۔یہ وہ دور تھا جب 20 اکتوبر1962 سے 21 نومبر 1962 کے درمیان ایک مہینے کی جنگ میں انڈیا کو چین نے بری طرح پچھاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے قریبی رفقا یہ کہتے تھے کہ نہرو بالکل ٹھیک ٹھاک تھے لیکن چین سے ہار کی وجہ سے ان کی صحت دن بدن کمزور ہوتی گئی اور پھر ان کے دماغ کی شریان پھٹ گئی جس سے وہ 27 مئی 1964 کو انتقال کر گئے۔
نہرو کی پاکستان انڈیا کنفیڈریشن کی تجویز، جسے ایوب نے رد کر دیا
تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن مولانا محمد اسماعیل ذبیح اپنی کتاب ’اسلام آباد منزلِ مراد‘ میں لکھتے ہیں کہ دسمبر 1962 میں پنڈت جواہر لال نہرو کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کنفیڈریشن چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان بیک ڈور چینل کے ذریعے رابطے بھی ہوئے اور انڈیا کے سینیئر سیاست دان اور مفکر جے پرکاش نرائن نے صدر ایوب سے راولپنڈی میں ملاقاتیں بھی کیں۔بعد میں صدر ایوب کو دورۂ انڈیا کی دعوت بھی دی گئی مگر صدر ایوب نے دو ٹوک مؤقف اپنایا کہ ’میرا دورہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب انڈیا باہمی تنازعات کو بامقصد حل کرنے میں مثبت کردار ادا کرے۔
نہرو کے انتقال کے بعد لال بہادر شاستری وزیراعظم بنے تو انہوں نے اکتوبر 1964 میں قاہرہ سے واپسی پر کراچی میں صدر ایوب سے ملاقات کی جس میں ایک بار پھر کنفیڈریشن کی تجویز دہرائی جس پر صدر ایوب نے کہا کہ ’اس وقت تک پاکستان ہندوستان سے کنفیڈریشن پر بات کرنے پر آمادہ نہیں ہے جب تک کشمیر اور دوسرے تنازعات پر دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے کوئی فیصلہ نہیں کر لیتے۔‘
تقسیم سے پہلے جناح کنفیڈریشن کے حامی اور نہرو مخالف تھے
تقسیمِ ہندوستان سے صرف ایک سال پہلے 24 مارچ 1946 کو اس وقت کے وزیراعظم برطانیہ کلیمٹ ایٹلی نے اپنی کابینہ کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ہندوستان بھجوایا جس میں سیکریٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا لارڈ پیتھک لارنس، بورڈ آف ٹریڈ کے صدر سر سٹیفورڈ کرپس اور برٹش نیوی کے سربراہ اے وی الیگزینڈر شامل تھے جن کو وائسرائے لارڈ ویول کی مدد بھی حاصل تھی۔یہ مذاکرات شملہ میں ہوئے جس میں کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت نے شرکت کی تھی۔ تاجِ برطانیہ کی جانب سے ان مذاکرات میں کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ وفاق کے پاس صرف خارجہ، دفاع، کرنسی اور مواصلات کے شعبے ہوں گے اور باقی تمام معاملات میں صوبے خود مختار ہوں گے۔
جناح نے اس سکیم کے حق میں رہتے ہوئے اس میں بعض ترامیم پر بات کی، لیکن نہرو ایک کمزور مرکز کی بجائے ایک مضبوط مرکز چاہتے تھے اور کسی طور پر آمادہ نہیں تھے کہ مرکزی حکومت کے پاس صرف چار شعبے ہوں۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے 26 اپریل کو کرپس سے ملاقات میں یہ یقین دلایا کہ وہ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کو ایک ایسے وفاق کے لیے راضی کر سکتے ہیں جو دو حصوں میں منقسم ہو اور ہر حصہ اختیاری شعبوں میں اپنے لیے علیحدہ قانون سازی کاا ختیار رکھتا ہو۔کابینہ مشن نے کوشش کی کہ فریقین تقسیم کی بجائے کسی ڈھیلے ڈھالے وفاق پر متحد ہو جائیں مگر نہرو اس کے لیے آمادہ نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا جو آگے چل کر ہندوستان کی تقسیم پر منتج ہوا۔
مولانا ابو الکلام آزاد اپنی کتاب India Wins Freedom میں لکھتے ہیں کہ ’میں تقسیم کا ذمہ دار نہرو کو ٹھہراتا ہوں، میں نے جواہر لال نہرو کو خبردار کیا تھا کہ اگر ہم تقسیم پر رضامند ہو گئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور اس کا الزام مسلم لیگ پر نہیں کانگریس پر آئے گا۔‘جسونت سنگھ اپنی کتاب Jinnah: India – Partition – Independence میں لکھتے ہیں کہ ’انڈیا نیشنل کانگریس کی قیادت نے 1939 سے1947 کے درمیان حقیقت پسندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس میں عزم کی کمی دکھائی دی۔ جناح پاکستان کے قیام کے نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کی کنفیڈریشن کے حامی تھے۔
پاکستان کے چھٹے وزیراعظم آئی آئی چندریگر کے بقول قراردادِ لاہور بھی ایک آزاد پاکستان کی بجائے متحدہ ہندوستان کے اندر پاکستان اور انڈیا کی کنفیڈریشن کی بات کرتی تھی جہاں پاکستان اور انڈیا برابری کی بنیاد پر رہ سکیں۔نامور تاریخ دان اور ٹفٹس یونیورسٹی امریکہ کی استاد ڈاکٹر عائشہ جلال بھی لکھتی ہیں کہ ’تقسیم ہندوستان ایک حادثہ تھا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ جناح ابتدائی طور پر الگ مسلم قومیت کے علم بردار نہیں تھے وہ پاکستان کا مطالبہ ہندوؤں سے اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات منوانے کے لیے پیش کرتے تھے تاکہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آج اس حقیقت کو زیادہ تر پاکستانی اور انڈین نہیں سمجھتے پاکستانیوں کے نزدیک جناح ایک ہیرو ہے اور انڈین انہیں ولن سمجھتے ہیں۔
کیا اب بھی کہیں پر پاکستان انڈیا کنفیڈریشن کا منصوبہ موجود ہے؟
مطالبۂ پاکستان پر کانگریسی قیادت کی ہٹ دھرمی اور ہندو پریس کے نفرت انگیز واویلے کی وجہ سے ہندوستان صرف تقسیم نہیں ہوا بلکہ تقسیم کے فسادات، کشمیر اور جونا گڑھ جیسے تنازعات نے نفرت کی ایسی دیواریں کھڑی کیں جن کو آج 78 سال گزرنے کے باوجود پاٹا نہیں جا سکا۔مگر اس کے باوجود یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ آج سے 22 سال بعد 2047 میں جب دونوں ممالک پاکستان اور انڈیا اپنی آزادی کی 100ویں سالگرہ منا رہے ہوں گے تو کیا ان کے درمیان یہ مسائل اسی طرح ہوں گے یا وہ اپنے باہمی تنازعات حل کر کے اچھے ہمسایوں کی طرح رہ رہے ہوں گے اور جنوبی ایشیا بھی یورپی یونین کی طرح ایک یونین بن جائے گی؟
ڈاکٹر من موہن سنگھ جو 2004 سے 2014 تک انڈیا کے وزیراعظم رہے انہوں نے 2008 میں کہا تھا کہ ’ہم سرحدوں کو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ہم انہیں غیر مؤثر ضرورکر سکتے ہیں۔ میں پاکستان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئے اور ہمارے ساتھ مل کر باہمی اشتراکِ عمل کے نئے دور کا آغاز کرے۔انڈیا کے سابق ڈپٹی وزیراعظم اور بی جے پی کے بانیوں میں شمار کیے جانے والے سینیئر سیاستدان ایل کے ایڈوانی نے 29 اپریل 2004 کو پاکستان کے اخبار ڈان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اب جبکہ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے دونوں ممالک کو سمجھنا ہو گا کہ تقسیم نے مسائل حل نہیں کیے تو پھر کیوں نا ہم کنفیڈریشن یا کسی ایسے ہی نظام کی طرف بڑھ جائیں۔
2018 میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور انڈین خفیہ ایجنسی را کے سربراہ اے ایس دلت کی مشترکہ کتاب The Spy Chronicles چھپی تو اس میں بھی جنرل درانی نے پاکستان اور انڈیا کی کنفیڈریشن کی تجویز کی حمایت کی ’جس کی مشترکہ کرنسی اور قانون ہو۔ جن کی سرحدیں کھول دی جائیں اور جن کی فوجوں کا انضمام ہو جائے۔کشمیر کا مسئلہ ایک آتش فشاں بن کر کھڑا ہے۔ عرصہ ہوا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں حتیٰ کہ انڈیا کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان آ کر کھیلنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں اگرچہ کسی ایسے مستقل کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے مگر پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں ممالک کے درمیان جو دوری آج ہے وہ جلد ختم ہو سکتی ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک کی ثقافت اور رسم و رواج ایک ہے، زبان ایک ہے اور وہ ایک ہزار سال تک ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔