ٹرمپ راج، غزہ جنگ اور پاکستان کیلئے بڑھتے چیلنجز

Donald-Trump-4.jpg

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں پیر کو حلف اٹھانے والے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی دھماکہ خیز انداز میں درجنوں ایگزیکٹو آرڈرز پر دھڑا دھڑ دستخط کرنا شروع کردئیے اور سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے درجنوں آرڈرز معطل بھی کرڈالے،محسوس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی آمد کے ساتھ ہی عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنا کا نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا، گو کہ اس ضمن میں جوبائیڈن کی جانب سے بھی کمی دیکھنے میں نہیں آئی، جیسا کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے ، ان پر امریکا کی کھلم کھلا حمایت یا عالمی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) کے فیصلوں پر نکتہ چینی کے ساتھ ساتھ عالمی عدالت کے اراکین پر پابندی لگانے کی بات کی جائے تو امریکا نے اپنے تمام سابقہ ریکارڈز توڑ دئیے ہیں اور اب یہ دعویٰ کہ امریکا عالمی قوانین کا بے حد احترام کرتا ہے، ایک زبانی جمع خرچ بلکہ جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔

امریکا نے موسمیاتی تبدیلی، پیرس اکارڈ، کلین انرجی سمیت دیگر معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی امریکی قوم کی خوشحالی و ترقی کیلئے بھی اعلانات کیے اور گزشتہ دور میں جب 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار ملا تھا تو انہوں نے کچھ ایسے ہی اعلانات کیے تھے جن پر بعد ازاں 55 سے 60 فیصد تک عملدرآمد کی رپورٹ سامنے آئی تھی۔ باقی میں سے کچھ تو قانونی جنگوں کی نذر ہوگیا اور کچھ امریکی بیوروکریسی کی مزاحمت کی نذر ہوا، تاہم اس بار کچھ اور یوں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔اس بار لوئر اور اپر دونوں ہاؤسز ڈونلڈ ٹرمپ کی مٹھی میں ہیں۔ پہلے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے صدر کو ایک حد تک ہی من مانی کی اجازت ہوا کرتی تھی، لیکن اب جہاں قانونی رکاوٹ ہوگی، وہاں ڈونلڈ ٹرمپ اپنا من پسند بل بنوا کر پاس بھی کروا سکتے ہیں کیونکہ دونوں ایوانوں سے حمایت یافتہ یہ صدر جب بھی اپنا بل ایوان کو بھیجے گا، وہ بل پاس ہوجائے گا کیونکہ اب اقتدار کی مسندوں پر براجمان زیادہ تر سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کے پلڑے میں ہیں۔ انہوں نے امریکی سرحدوں پر جو ایمرجنسی لگائی ہے، اس کے متعلق اپنی الیکشن مہم کے دوران ہی اعلان کرچکے تھے۔

اس سے قبل امریکا میں کھلم کھلا اظہارِ رائے پر ایگزیکٹو آرڈر کے تحت جو قدغنیں لگائی گئی تھیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ختم کردیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فوج کو مزید ذرائع دینے کا بھی اعلان کیا۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سب سے زیادہ ووٹ سفید فام بالادستی کے باعث دئیے گئےجو معاشرے کے امن کیلئے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فاسل فیول کوبھی فروغ دینے کا اعلان کیا۔ یوں،امریکی فاسل فیول نہ صرف امریکا میں بلکہ دنیا بھر میں بیچا جانے لگے گا جس سےموسمیاتی تبدیلیوں پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین جنگ کے ساتھ ساتھ غزہ جنگ بھی ختم کیے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب میں حلف اٹھاؤں گا، اس سے قبل جنگ رک جانی چاہئے، تاہم غزہ جنگ اتنی جلدی رکتی نظر نہیں آتی کیونکہ اسرائیل کے اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی پر عمل پیرا رہے گاجسے امریکا کی کھلم کھلا پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا اعلانیہ حصہ تسلیم کرلیا جائے گا جبکہ یہ وہ حصہ ہے جہاں مسجد اقصیٰ اور یروشلم دونوں موجود ہیں جو مسلمانوں کیلئے انتہائی عزت و احترام کے مقامات ہیں۔

سلامتی کونسل کے باب 8 کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم معرضِ وجود میں آئی جس کے نقطہ آغاز میں ہی تحریر ہے کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور فلسطین کی حمایت میں مربوط زورلگایا جائے گا یا سپورٹ کرے گی، لیکن ایسی چیزیں ختم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ خاص طور پر غزہ میں جہاں 48ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں، لیکن اب جنگ بندی سمیت دیگر معاملات اسرائیل کی شرائط پر ہورہے ہیں۔ نیتن یاہو سمیت اسرائیلی قیادت غزہ جنگ بندی کے باوجود خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ دوبارہ حملے کی دھمکیاں بھی دیتی دکھائی دے رہی ہے، جنگ بندی کی پہلی خلاف ورزی چند گھنٹے پہلے 3فلسطینیوں کو شہید اور 10 کو زخمی کرکے کی گئی۔

اگر جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت ایکشن لیں گے، یہ دہشت گرد گروہ وہی ہیں جو افغانستان میں موجود ہیں اور جس کا تذکرہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی ٹیم نے پہلے ہی اپنی رپورٹ میں کردیا ہے اور اس کا بین ثبوت سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ٹیرر فنانسنگ جیسے معاملات پر عالمی قوانین پر ، جیسا کہ ماضی میں عملدرآمد کرکے ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا تھا، بالکل اسی طرح اپنا عملدرآمد واضح کرے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کا عزمِ مصمم ظاہر کرے اور امریکا سمیت اتحادی ممالک کو باور کروائے تاکہ بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں خارجہ پالیسی میں بھی اہم تبدیلیاں لا کر عالمی چیلنجز کا سامنا کیا جاسکے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کوئی عام امریکی صدر نہیں بلکہ ایک غیر روایتی اور نہایت طاقتور سیاست دان بن کر ابھرا ہے جو کسی بھی وقت کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور ماضی میں انہوں نے اپنے مختلف اقدامات سے یہ ثابت بھی کیا ہے، جن کا اگلا پراجیکٹ ابراہم اکارڈ کا پھیلاؤ ہے ۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جب اسرائیل مسجد اقصیٰ کے گردونواح کے کنٹرول کو بھی لیگلائز کرلے گا ، تو اس پر خطے کے ممالک نہ بات کرسکیں گے اور نہ ہی مزاحمتی پالیسی اپنانے کے قابل ہوں گے۔ امریکا نے سعودی عرب سمیت دیگر گلف ممالک کو اپنے کیمپ میں شامل کرتے ہوئے اسرائیل کی مخالفت یا مزاحمت کرنے کے قابل نہیں چھوڑا اور اگر او آئی سی کے کسی ملک میں مزاحمت کی تھوڑی بہت سکت ہے تو اسے بھی مدھم یا ناکارہ کردے گاجبکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی برآمدات کا زیادہ تر انحصار امریکا اور اتحادی ممالک پر ہوتا ہے اور ہم یورپی یونین کے ممالک سے بھی تجارت کرتے ہیں۔ ایسے میں امریکا جو متعلقہ ٹیکس عائد کرنے والا ہے، اس پر بھی پاکستان کی جانب سے جلد اور مناسب تحقیق کے بعد خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے، تاہم ہماری موجودہ حکومت کی جانب سے تاحال ایسے اقدامات اٹھائے جانے کی کوئی نوید سنائی نہیں دیتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے