نیل سے فرات تک؛ گریٹر اسرائیل کا تصور
رواں ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کرکے تمام ہم نوا عرب ملکوں کو حیران کردیا۔ اب تک جو عرب ملک اسرائیل کی حمایت میں کمربستہ اور اس کو بحیثیت ایک ریاست تسلیم کرچکے تھے، اُن سے بھی جواب دیتے نہیں بن رہا ہے؛ خاص طورپر اُردن، مصر، عرب امارات اور ترکی جیسے ملکوں کے لئے سخت گھڑی ہے جو اسرائیل کے ناجائز وجود کو جائز ٹھہراتے رہے ہیں۔شام میں اقتدارکی کایاپلٹ ہوچکی ہے اور اب ہئیت تحریرالشام کے روح ورواں الجولانی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے،انہوں نے بھی اس پر کسی ردعمل کا اظہارنہیں کیا۔اُن سے زیادہ توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ بشارالاسد کے شام سے فرار ہونے کے بعدجب اسرائیلی فوجیں شامی سرحدوں میں نفوذ کررہی تھیں اس وقت الجولانی خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔اسی طرح اُردن جو اسرائیل پر حملے کے لئے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کے خلاف تھا،اس کا وجود ہی زیر سوال آگیا۔
گریٹر اسرائیل کے تازہ نقشے میں فلسطین ،شام ،لبنان اور اُردن کے کچھ علاقے کو اسرائیل کا حصہ قراردیاگیاہے ۔چونکہ فی الوقت جنگ اسی خطے میں جاری ہے لہذا تازہ نقشے میں ’گریٹر اسرائیل ‘ کے اصل تصور کو شامل نہیں کیاگیاجس میں ترکی ،ایران،مصر،عراق اورعرب امارات بھی شامل ہیں ۔اس سے پہلے 2023 میں اسرائیلی وزیر بیزلیل سموٹریچ نےگریٹر اسرائیل کا نقشہ نشرکیا تھاجس میں اُردن کو اسرائیل کا حصہ بتایا گیا تھا۔اسکے باجود اُردن کے حکمران خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے اور اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے ۔البتہ اُردن کے عوام اب مقاومتی محاذ کے ساتھ کھڑے ہیں اور غرب اُردن میں مزاحمتی تحریک پنپ رہی ہے ۔
’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کا جاری ہونا تھا کہ عرب ملکوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔اسرائیل جو اس وقت بارود کے ڈھیر پر بیٹھاہوا ہے ،اس سے اس اقدام کی توقع نہیں کی جارہی تھی ۔مگر دنیا کو یہ سمجھنا ہوگاکہ یہ نقشہ جلد یابدیر جاری تو ہونا ہی تھا۔دوسرے یہ مکمل نقشہ نہیں ہے ۔گریٹر اسرائیل کاتصور تو نیل سے فرات تک ہے لہذا یہ نقشہ نہ توپہلاہے اور نہ آخری ہوگا۔سعودی عرب نے اس اقدام کو انتہا پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر اعلانیہ حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔فلسطین اور اُردن کی حکومتوں نے بھی اس نقشے کی مذمت کی ہے ۔لیکن کیا ان کے مذمتی بیانات سے ڈرکر اسرائیل اپنے اس منصوبےسے دستبردار ہوجائے گا ؟ہرگز نہیں !اسرائیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عرب ملکوں میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس کے فیصلوں کے خلاف سخت اور حتمی موقف اختیارکرسکیں ۔غزہ جنگ کے دوران اس نے مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی اور بزدلی کا اچھی طرح مظاہرہ کیاہے ۔
اس نقشے میں فلسطین کے ہونے پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل جھگڑے کی جڑ تو فلسطین کی سرزمین ہی ہے جہاں اسرائیل بھی موجود ہے اور غزہ بھی ۔البتہ فلسطینی صدر محمود عباس، جوکہ اسرائیل نوازی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ،کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔ایک طرف جہاں غزہ کے عوام مسلسل اسرائیلی جارحیت کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں وہیں محمود عباس استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں ۔طوفان الاقصیٰ کے بعد حماس کا مقابلہ براہ راست عالمی طاقتوں سے تھا۔مگر اس دوران اس کے جنگجوئوں کو محمود عباس کی فوج نے بھی ماراجس کی تصدیق خود حماس کے ترجمان نے کی ۔غزہ کے عوام کی جنگ فقط غزہ کے لئے نہیں ہے ۔وہ فلسطینی سرزمین کی آزادی اور مظلوموں کی نجات کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں ۔مگر محمود عباس کی حکومت نے غزہ کو ایک الگ ملک تصور کرتے ہوئے اس کے مزاحمتی گروہ کو اپنا دشمن سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگر محمود عباس کی یہی پالیسی رہی تو فلسطین اسی طرح اسرائیل کے توسیع پسندانہ نظام کی زد میں رہے گا۔سیاسی حریفوں کے خاتمے کے لئے پورے ملک کو اپنی خواہشوں کی بھینٹ نہیں چڑھاناچاہیے ،یہ بات محمود عباس کو سمجھنی ہوگی۔
"پرومسڈ لینڈ” کاافسانوی تصور
اب آئیے سمجھتے ہیں کہ ’گریٹر اسرائیل ‘ کا تصورکیاہے ۔’گریٹر اسرائیل دراصل ’دی پرومسڈ لینڈ‘ کے تصور پر مبنی ہے ۔اس تصور نے یہودیوں کے بجائے صہیونیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے بانی کے مطابق ’پرومسڈ لینڈ ‘ میں نیل سے فرات تک کے علاقے شامل ہیں ۔اس طرح فلسطین، اُردن ،مصر ،لبنان، عراق،،ترکی ، ایران، شام اور سعودی عرب جیسے ملک بھی ’گریٹر اسرائیل ‘ کا حصہ سمجھے جاتے ہیں ۔ترک صدر اور خلاف عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کے خواب سنجونے والے طیب اردوگان کو بھی اس پر واضح موقف اختیارکرناچاہیے ۔یاپھر ترک صدر نےشام کو الجولانی کے حوالے کرنے میں اسی لئے مدد کی ہے تاکہ اس کو گریٹر اسرائیل میں شامل کردیا جائے ۔توکیا اب اگلاہدف ترکیہ نہیں ہوگا؟خیر!یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گاکہ شام کے سقوط کے نتائج کیا ہوں گے اور آیا ترکیہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ نظام کی زد میں آئے گا یا نہیں!
صہیونیوں کا ماننا ہے کہ ان کی مذہبی کتاب ’بائبل ‘ اور قدیم تاریخی حوالوں کے تناظر میں نیل سے فرات تک کے تمام علاقوں پر ان کا حق ہے ۔جب کہ بعض دانشور ’گریٹر اسرائیل ‘ کو افسانوی تصورمانتے ہیں ۔اُن کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد مشرق وسطیٰ میں موجود وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھےاور جہاں یہودی بستے تھے ۔غرض کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور متنازعہ بھی ہے اور موجب فتنہ وفساد بھی ۔اسرائیل نے جو نقشہ سرکاری اکاونٹ پر جاری کیا اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست تقریباً تین ہزار سال قبل قائم ہوئی تھی ۔اس کے پہلے تین بادشاہوں میں شاہ شاؤول، شاہ داؤد اور شاہ سلیمان شامل ہیں جنہوں نےمجموعی طورپر ایک سوبیس سال تک حکومت کی ۔انہی کے دور میں یہودی تہذیب وثقافت اور معیشت میں ترقی ہوئی ،جس کی بازیافت کی کوشش اس وقت اسرائیل کررہاہے ۔
صہیونیوں کا کہناہے کہ نوسو اکتیس سا ل قبل مسیح شاہ سلیمان کی وفات کے بعد داخلی تنازعات اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مملکت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: شمال میں مملکت اسرائیل اور جنوب میں مملکت یہودہ۔ شمالی مملکت اسرائیل 209 سال بعد آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور جنوبی مملکت یہودہ 345 سال بعد بابل کے بادشاہ بخت النصر کےذریعہ (568 قبل مسیح) ختم ہو گئی۔یہ تقسیم صدیوں تک تنازعات کاشکار رہی اور یہودی جلاوطنی کی زندگی گذارتے رہے ۔مگر 1948 میں انہوں نےفلسطین کی سرزمین پرمختلف حیلوں اور سازشوں کے ذریعہ قبضہ کرکے اپنی مستقل ریاست کا اعلان کردیا۔فلسطین اور اسرائیل کی اس تقسیم کو آج تک مسلمان تسلیم نہیں کرسکے ہیں ۔فلسطینی بھی 1948میں ہوئی اس تقسیم کو قبول نہیں کرتے ۔
فلسطینی کاز کے حامی اسرائیل کو ناجائز ریاست مانتے ہیں جس کے خلاف اس کے قیام کے فوراً بعد جدوجہد شروع ہوگئی تھی ۔مگرعرب ملکوں کی منافقت اور استعمارنوازی نے اسرائیل کے وجود کو جواز بخشا۔’صدی معاہدہ ‘ (ڈیل آف سینچری) کے بعد ،جو ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز کے ذریعہ پیش کیا گیا تھا،یروشلم کو امریکی حمایت سےاسرئیلی پایۂ تخت قرار دیدیا گیا جس کو اب تک اکثر مسلمان ملکوں نے تسلیم نہیں کیا۔اس راہ میں صہیونی کاز مسلسل کوششیں کررہا تھا اور کامیابی کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے تھے مگر طوفان الاقصیٰ نے اس کی امیدوں پر پانی پھیردیا۔
مسئلۂ فلسطین جو صہیونیوں کی سازشوں اور منصوبہ بندی کی بناپر فراموشی کی نذر ہورہا تھاحماس نے ایک بارپھر اس کو دنیا کے سامنے زندہ کردیا۔آج دنیا میں سب سے زیادہ مسئلۂ فلسطین کے حل پر گفتگو ہو رہی ہے جس کا اسرائیل کو بھی شدت سے احساس ہے ۔گریٹر اسرائیل کا تازہ نقشہ اس کے عدم تحفظ اور نفسیاتی کشمکش کو بھی ظاہرکرتا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی اس توسیع پسندانہ فکر کے خلاف عرب ملک اپنی غیرت کا مظاہرہ کریں گے یا نہیں!
کالم نگار :- عادل فراز