غزہ سیزفائر ڈیل کے لیے حتمی مسودہ اسرائیل اور حماس کے حوالے

389584_7306309_updates.jpg

قطر کے دارالحکومت دوحہ اور مصری دارالحکومت قاہرہ سے پیر 13 جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر کوششیں کرنے والے ممالک امریکہ، قطر اور مصر کے ثالثوں نے گزشتہ رات گئے اپنے مذاکرات میں ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ان مذاکرات میں امریکہ کی طرف سے عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے بھیجے ہوئے مندوب شامل ہوئے۔ سیزفائر مذاکرات میں یہ بڑی پیش رفت اتوار اور پیر کی درمیانی رات نصف شب کے بعد ممکن ہوئی، جس کے بعد ان مذاکرات کی بریفنگ میں حصہ لینے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ ثالث ممالک نے آج پیر کی صبح جنگ بندی معاہدے کا حتمی مسودہ اسرائیل اور عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے نمائندوں کے حوالے کر دیا۔اس اہلکار نے بتایا کہ غزہ کی جنگ میں فائر بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مجوزہ دستاویز قطر کی طرف سے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں جنگی فریقین کو پیش کی گئی۔ ان مذاکرات میں اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیوں موساد اور شین بیت کے سربراہان بھی شریک تھے اور قطر کے وزیر اعظم بھی۔

اگلے چوبیس گھنٹے فیصلہ کن

دوحہ مذاکرات میں پیر کو علی الصبح ہونے والی پیش رفت سے واقف اور بریفنگ میں شریک اس اہلکار نے کہا، ”اس معاہدے پر عملی اتفاق کے لیے اگلے 24 گھنٹے فیصلہ کن ہوں گے۔اسی دوران اسرائیل کے کان ریڈیو نے بھی ایک اسرائیلی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے آج تصدیق کر دی کہ دوحہ میں اسرائیل اور حماس دونوں کے وفود کو سیزفائر ڈیل کا حتمی مسودہ مل گیا ہے اور اسرائیلی وفد نے اس بارے میں اسرائیلی رہنماؤں کو بریفنگ بھی دے دی ہے۔فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور دوحہ میں قطری وزارت خارجہ نے باقاعدہ طور پر یہ تصدیق نہیں کی کہ ممکنہ جنگ بندی معاہدے کا حتمی مسودہ حماس کو بھی مل گیا ہے۔دریں اثنا ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے آج کہا کہ اگر حماس نے بھی اس مسودے کے جواب میں مثبت ردعمل ظاہر کیا، تو حتمی سیزفائر ڈیل چند ہی روز میں طے پا سکتی ہے۔

صدر بائیڈن کی اسرائیلی وزیر اعظم سے فون پر بات چیت

اتوار کی رات جب دوحہ میں تینوں ثالث ممالک کے نمائندے اسرائیل اور حماس کے وفود سے اس معاہدے کی دستاویز کے بارے میں مکالمت کر رہے تھے، تقریباﹰ اسی وقت اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ٹیلی فون پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے گفتگو بھی کی۔وائٹ ہاؤس کے مطابق اس گفتگو میں صدر بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر زور دیا کہ غزہ پٹی میں ”جنگ بندی اشد ضروری ہو چکی ہے، تاکہ اسرائیلی یرغمالیوں کی اسرائیل واپسی ممکن ہو سکے اور غزہ پٹی کے لاکھوں باشندوں کے لیے سیزفائر معاہدے کے نتیجے میں لڑائی بند ہونے کے بعد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کو تیز رفتار بنایا جا سکے۔‘‘

اسرائیل کے کٹر قوم پسند وزیر خزانہ کا اعلان

اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل اور کٹر قوم پسند وزیر خزانہ بیزالیل اسموتریچ، جو ماضی میں بھی غزہ سیز فائر معاہدے کے طے کیے جانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں، نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کی موجودہ کوششوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے پیر کے روز کہا کہ ایسا کوئی بھی فائر بندی معاہدہ اسرائیل کے لیے ”ہتھیار پھینک دینے کے مترادف‘‘ ہو گا، جس کے ”اسرائیلی ریاست کی قومی سلامتی کے لیے نتائج تباہ کن‘‘ برآمد ہوں گے۔اسموتریچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ”ہم ایسی کسی ڈیل کا حصہ نہیں بنیں گے، جس کے تحت خطرناک دہشت گردوں کو رہا کر دیا جائے، جنگ بند کر دی جائے اور وہ تمام کامیابیاں رائیگاں جائیں، جن کے لیے ہم نے اپنا کافی خون بہایا اور بہت سے اسرائیلی یرغمالی دوران حراست مارے بھی گئے۔

اسموتریچ کا آج کا تازہ بیان اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت میں اس گہری تقسیم رائے کی عکاسی بھی کرتا ہے، جو غزہ میں جنگ بندی کوششوں کے حوالے سے اسرائیلی سیاست اور معاشرے دونوں میں پائی جاتی ہے۔مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم نیتن یاہو کے پاس اتنی سیاسی حمایت بہرحال موجود ہے کہ وہ وزیر خزانہ اسموتریچ کی تائید کے بغیر بھی اسرائیلی کابینہ سے غزہ امن ڈیل منظور کروا سکتے ہیں۔

حماس کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تیاریاں

مشرق وسطیٰ سے ملنے والی دیگر رپورٹوں کے مطابق فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اب غزہ سیزفائر ڈیل کے نتیجے میں اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تیاریاں کر رہی ہے۔حماس کی طرف سے پیر کے روز کہا گیا کہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہے اور اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدی جلد ہی رہائی پا کر واپس لوٹیں گے۔پچھلی مرتبہ غزہ کی جنگ میں نومبر 2023ء میں ہونے والی ایک محدود فائر بندی کے دوران حماس نے اپنے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے 105 کو رہا کر دیا تھا، جس کے جواب میں تب اسرائیل نے بھی اپنی جیلوں سے 240 فلسطینی قیدی رہا کر دیے تھے۔

غزہ میں اب تک ہونے والی ہلاکتیں

غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی، جب سات اکتوبر 2023ء کے روز حماس نے اسرائیل میں ایک بڑا حملہ کیا تھا، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور واپس جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے حماس کے خلاف زمینی، بحری اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے اور یہ لڑائی آج تک جاری ہے، جس میں غزہ میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق آج پیر 13 جنوری تک مجموعی طور پر 46,584 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ ان میں بہت بڑی تعداد فلسطینی خواتین اور بچوں کی تھی۔ مرنے والوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہلاک ہونے والے 19 افراد بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ گزشتہ 15 ماہ سے بھی زائد عرصے سے جاری غزہ کی جنگ میں اس بہت گنجان آباد فلسطینی علاقے میں اب تک کم از کم 109,731 افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔