انڈیا میں کسانوں کا "مرن بھرت ” یوم جمہوریہ پر "ٹریکٹر ٹریلی” ریلی کا اعلان

7dbac9e0-cff3-11ee-9a5b-e35447f6c53b.jpg

پنجاب اور ہریانہ کے درمیان کھنوری بارڈر پر مرن برت (تادم مرگ بھوک ہڑتال) پر بیٹھے کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلیوال کی صحت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے وارننگ جاری کر دی ہے۔ لیکن وہ طبی امداد لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ڈلیوال ایک کسان تنظیم ’سمیوکت کسان مورچہ‘ (ایس کے ایم، غیر سیاسی) کے 70 سالہ رہنما ہیں۔ وہ فصلوں کی سرکاری قیمت ’منیمم سپورٹ پرائس‘ (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بدھ کو ان کی بھوک ہڑتال کو 44 دن ہو گئے ہیں۔راجندر میڈیکل کالج اینڈ اسپتال پٹیالہ کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے منگل کو ان کی صحت کا معائنہ کرنے کے بعد انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حالت نازک ہے۔ ان کے اعضائے رئیسہ کی حالت تشویش ناک ہے۔ انھوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ وہ ضروری اقدامات کرے۔ریاست پنجاب کے محکمہ صحت کے ایک سینئر میڈیکل آفیسر نے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ایمرجنسی ٹیمیں صورتِ حال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ٹیم اس اسٹیج کے پاس ہے جہاں وہ بھوک ہڑتال پر ہیں اور دوسری دو کلومیٹر دور ہے۔ میڈیکل آفیسر کے مطابق فی الحال صورت حال قابو میں ہے۔

کسان تنظیموں کا احتجاج

ادھر کسانوں کی الگ الگ تنظیموں نے نئے سرے سے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔’آل انڈیا کسان مزدور مورچہ‘ اور ’سمیوکت کسان مورچہ‘ نے 10 جنوری کو ملک گیر سطح پر حکومت کا پتلا اور 13 جنوری کو سکھوں کے تہوار لوہڑی پر زرعی مارکیٹنگ کے سلسلے میں حکومت کے قومی پالیسی فریم ورک کے مسودے کو نذر آتش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دونوں تنظیموں کے رابطہ کار سورن سنگھ پنڈھیر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ 26 جنوری یعنی یوم جمہوریہ پر ملک گیر ٹریکٹر ریلی نکالنے کا پلان بنا رہے ہیں۔یاد رہے کہ مذکرہ دونوں تنظیموں کی جانب سے ہریانہ اور دہلی کے شمبھو بارڈر اور پنجاب اور ہریانہ کے کھنوری بارڈر پر گزشتہ سال 13 جنوری سے ہی دھرنا دیا جا رہا ہے۔ کسانوں نے گزشتہ سال آٹھ دسمبر کو شمبھو بارڈر سے دلی کوچ شروع کیا تھا جسے پولیس نے شیلنگ کرکے ناکام بنا دیا تھا۔ اس موقع پر کئی کسان ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

بھوک ہڑتال کی حمایت

دریں اثنا سکھوں کے سب سے بڑے مذہبی ادارے اکال تخت نے جگجیت سنگھ ڈلیوال کی تادم مرگ بھوک ہڑتال کی حمایت کی ہے۔اکال تخت کے جتھیدار گیانی رگھبیر سنگھ نے شری گرو گوبند سنگھ کے یوم پیدائش پر پیر کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سکھ مت میں بھوک ہڑتال کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لیکن ڈلیوال کی بھوک ہڑتال جائز ہے۔ان کے مطابق کسان جو انسانوں کو کھانا کھلانے کے لیے انتھک محنت کرتا ہے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے آج کھانا ترک کرنے پر مجبور ہے۔ حکومت کی طرف سے اس سے زیادہ خوف ناک چیز اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ایک سیاسی جماعت اکالی دل نے کہا کہ یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ یومیہ بنیاد پر ڈلیوال کی صحت کی نگرانی کر رہی ہے اور دوسری طرف مرکزی اور ریاستی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور سیاست کر رہی ہیں۔

انھوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور ایسا ماحول بنائیں کہ ڈلیوال کی بھوک ہڑتال ختم ہو۔’سمیوکت کسان مورچہ‘ کی نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن ڈاکر آشیش متل کا کہنا ہے کہ کسانوں کے مطالبات پر حکومت کی سردمہری کے خلاف کسانوں کی الگ الگ تنظیموں کی جانب سے احتجاج کے الگ الگ اعلانات کیے جا رہے ہیں۔کسانوں کے مطالبات پر حکومت کی سردمہری کے خلاف کسانوں کی الگ الگ تنظیموں کی جانب سے احتجاج کے الگ الگ اعلانات کیے جا رہے ہیں: کسان رہنما آشیش متلمیڈیا سے گفتگو میں انہوں نے جگجیت سنگھ ڈلیوال کی صحت کے بارے میں کہا کہ ڈلیوال صاحب نے کہا ہے کہ اگر حکومت مذاکرات کرے تو وہ طبی امداد لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن حکومت مطالبات ماننا تو دور بات چیت بھی کرنا نہیں چاہتی۔

سپریم کورٹ کا حکم

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ڈلیوال کی صحت کی نگرانی اور کسانوں کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے پیر کو ڈلیوال سے ملاقات کی۔ کورٹ نے حکومت سے کہا کہ وہ ان کی طبی امداد پہنچائے۔ اس نے حکومت کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ کسانوں سے مذاکرات کرے اور ان کو اطمینان دلائے۔ڈاکٹر آشیش متل کے مطابق حکومت اطمینان دلانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ اس کا رویہ 2020 کے رویے سے بھی خراب ہے۔ اس وقت حکومت کی جانب سے مذاکرات ہو رہے تھے اور کئی دور کی بات چیت ہوئی تھی۔واضح رہے کہ کسانوں کی مختلف تنظیموں کی جانب سے 2020 میں شمبھو اور غازی پور بارڈر پر دھرنا دیا گیا تھا جو کئی ماہ تک چلا تھا۔ اس دوران 60 سے زائد کسانوں کی موت ہوئی تھی۔ اس وقت وزیر زراعت اور کسان نمائندوں کے درمیان کئی دور کی بات چیت ہوئی تھی۔

کسانوں کے مطالبات ہیں کیا؟

کسانوں کا اصل مطالبہ حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے تین زرعی قوانین کی واپسی اور ایم ایس پی کی گارنٹی تھا۔ دیگر کئی مطالبات اور تھے۔ کسانوں کا مؤقف تھا کہ یہ قوانین کسانوں کے مفادات کے خلاف ہیں اور یہ کہ انھیں غیر ملکی کمپنیوں اور کارپوریٹ کے دباؤ میں بنایا گیا ہے۔حکومت نے احتجاج کے نتیجے میں تینوں زرعی قوانین واپس لے لیے تھے۔ جب کہ دیگر مطالبات کو منظور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس نے کسانوں کے مفاد میں یہ قوانین بنائے ہیں۔ اس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔اس نے دباؤ میں قوانین بنانے کے الزام کی تردید کی تھی۔ اس کے بعد بھی اس نے کسانوں کے لیے کئی فلاحی پروگراموں کا اعلان کیا تھا۔لیکن ڈاکٹر متل کہتے ہیں کہ حکومت کسانوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ وہ اس الزام کا اعادہ کرتے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیوں اور کارپوریٹ کے دباؤ میں قوانین وضع کیے گئے تھے اور دباؤ کی وجہ سے ہی اب وہ کسانوں کی بات نہیں سن رہی ہے۔

ان کے مطابق کسانوں کے مطالبات حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان نو دسمبر 2021 کو ہونے والے تحریری سمجھوتے کے مطابق ہیں۔ اس سمجھوتے پر آگے کی کارروائی کرنے کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی بنائی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ان کے مطابق کسانوں کی الگ الگ تنظیمیں اپنے اپنے طور پر احتجاج کر رہی ہیں۔ ایک تنظیم نے بھوک ہڑتال شروع کی اور ایک دوسری نے دلی مارچ کا اعلان کیا۔ اب ایک تنظیم نے 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔اُنہوں نے بتایا کہ حکومت نے کسانوں کے خلاف جو طاقت کا استعمال کیا اس کے خلاف بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ کسان تنظیمیں الگ الگ مقامات پر جلسے کر رہی ہیں۔ ان کی تنظیم کی جانب سے منگل کو موگا کے مقام پر ایک بڑا جلسہ کیا گیا۔ اب ہم لوگ ہر ضلعے میں بھوک ہڑتال کرنے والے ہیں۔جگجیت سنگھ ڈلیول ایک معروف کسان رہنما ہیں۔ قبل ازیں انھوں نے پنجاب میں زمینوں کو حکومت کی جانب سے تحویل میں لیے جانے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ انھوں نے 2018 میں دہلی کی طرف کوچ کرنے والے ایک ٹریکٹر قافلے کی قیادت کی تھی۔ان کا مطالبہ تھا کہ 2004 میں حکومت کی کمیٹی نے کسانوں کے لیے جو سفارشیں کی تھیں ان پر عمل کیا جائے۔ اب وہ ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی اور دیگر مطالبات کے ساتھ 26 نومبر سے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے