کرم ایجنسی کیلئے امدادی سامان کا قافلہ ٹل میں پھنس کر رہ گیا، مذاکرات بے نتیجہ
پاراچنار کے عوام نے ایک اور دن ضلع کرم کی سرحد پر ٹل میں پھنسے امدادی قافلے کا انتظار کرتے ہوئے گزارا، کیوں کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان گاڑیوں کے محفوظ راستے کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سابق وزیر ساجد طوری نے کہا کہ امن معاہدے کے بعد یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ قافلہ پاراچنار پہنچے۔انہوں نے کہا کہ کرم کے ’محصور علاقوں‘ میں صورتحال اچھی نہیں ہے اور اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی تو صورتحال مزید خراب ہوگی۔کئی ماہ تک جاری رہنے والے تشدد کے بعد (جس میں 130 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے) یکم جنوری کو متحارب فریقین کے درمیان ایک امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، لیکن لڑائی میں کمی کے باوجود پاراچنار کو صوبے کے باقی حصوں سے ملانے والا راستہ بدستور بند ہے۔
ہفتے کے روز بگن کے علاقے کے قریب ایک سرکاری قافلے پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں کرم کے ڈپٹی کمشنر بھی زخمی ہوئے، اس کے بعد سے یہ امدادی سامان کا قافلہ پھنسا ہوا ہے۔حملے کے جواب میں حکومت نے ایف آئی آر میں نامزد 3 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا، اس کے علاوہ 3 عمائدین نے خونریزی کے خاتمے کے لیے امن معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ساجد طوری نے کہا کہ 2 ماہ سے زائد عرصے سے سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے کرم کو اشیائے خورونوش، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے، ٹل پاراچنار روڈ کی 93 روز سے بندش کی وجہ سے مارکیٹوں میں بنیادی ضروریات ختم ہو چکی ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ ضلع میں ایسے عسکریت پسند موجود ہیں جن کو ’حمایت‘ حاصل ہے، لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کون ان کی حمایت کر رہا ہے۔
سابق وزیر کے مطابق حکومت ’کمزور پوزیشن‘ میں مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہی ہے، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے کوہاٹ کے اپنے پہلے دورے میں جرگے کے بغیر فیصلہ کیا اور پھر کابینہ اور اپیکس کمیٹی نے بھی اس کی توثیق کی۔اس کے علاوہ گزشتہ ماہ شروع کی گئی ہیلی کاپٹر سروس بھی ایک ہفتے سے بند ہے جس کی وجہ سے مریضوں، مسافروں اور طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ساجد طوری کے مطابق حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ قافلہ منگل کو پاراچنار پہنچے گا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا، تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ اس طرح کے قافلے تقریباً 5 لاکھ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا حل نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت کم ہے، اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ کب ایک اور قافلے کو آگے بڑھنے کی اجازت دی جائے گی۔
رکن قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین نے فوری اقدامات پر زور دیا کہ رسائی کے راستے کھولے جائیں، تاکہ شہریوں کو خوراک اور علاج معالجے کے حوالے سے درپیش مشکلات کو دور کیا جا سکے۔لوئر کرم سے تعلق رکھنے والے جرگے کے رکن ڈاکٹر قدر اورکزئی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ قافلہ بدھ کو کرم کے لیے روانہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مقامی حکام نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے منگل کو چپاری گیٹ پر ایک اجلاس منعقد کیا تھا، مجھے امید ہے کہ آج رات چیزیں مثبت انداز میں سامنے آئیں گی۔ڈاکٹر قدر اورکزئی نے کہا کہ فساد میں جلائے گئے بگن بازار کو شمالی وزیرستان کے میرم شاہ بازار کی طرح دوبارہ تعمیر کیا جانا چاہیے۔
ڈپٹی کمشنر پر حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قدر اورکزئی نے کہا کہ بگن کے لوگوں کا اس حملے سے کوئی لینا دینا نہیں، اور وہ حال ہی میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں، بگن کے لوگ خود تشدد کا شکار ہیں اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں۔دوسری جانب قافلے میں شامل کچھ گاڑیاں تاخیر کے باعث واپس پشاور پہنچ گئی ہیں، ہنگو کے ڈپٹی کمشنر گوہر زمان وزیر نے بتایا کہ صرف خراب ہونے والی اشیائے خور و نوش لے جانے والی گاڑیاں واپس چلی گئی ہیں، جب کہ باقی گاڑیاں اب بھی قافلے کا حصہ ہیں۔