آج ہمارے پاس ایک اہم پینل موجود ہے کہ جو ایسے موضوع پر گفتگو کرنے جا رہا ہے جس کے بارے سبھی مزید سننا چاہتے ہیں
جو اسرائیل اور غزہ کی جنگ ہے
جس کے تحت ہم آج ان اسٹریٹجک چیلنجوں پر بات کریں گے جو کل ہمیں یعنی ”امریکہ و اسرائیل” کو درپیش ہوں گے
اور ہم اس جنگ کے مختلف تہیہ کنندہ پر بھی بات کریں گے
جو اسرائیل، غزہ، مغربی کنارے اور بہت ہی مختصر طور پر لبنان، شام، و یمن میں موجود ہیں
ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ بین الاقوامی تنظیموں میں کیا چل رہا ہے
عالمی عدالتوں میں
اور ہم اس پر بھی بات کریں گے کہ امریکی کالجوں و یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے
اور اسی طرح وائٹ ہاؤس میں اور کیپیٹل ہل میں
ہمیں جوائن کیا ہے 3 اشخاص نے کہ جنہیں میں ان موضوعات میں ‘قطب شمالی’ سمجھتا ہوں
ہمارے ساتھ ڈینیل پائپس ہیں
جنہیں ہم پہلے سے سن رہے ہیں اور اس پینل کے ساتھ ان کا تعلق آئندہ جون میں آنے والی ان کی کتاب ‘اسرائیل کی فتح’ ہے جس کے بارے ہم نے بات کی ہے
ہمارے ساتھ جوناتھن شینزر ہیں
(صیہونی تھنک ٹینک) فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) کے سینیئر نائب صدر
اور گذشتہ 20 سالوں سے میرا دوست جو تب (امریکہ میں سب سے بڑی اسرائیلی لابی) ایپک (AIPAC) میں انٹرم بورڈکا سربراہ تھا اور بعد میں ایک مرتبہ ایپک کا ڈائریکٹر برائے ڈیفنس پروگرام بھی بنا
یہ ایف ڈی ڈی (FDD) میں اسسٹنٹ بھی ہے اور اس وقت کوفائی (Christian United For Israel) ایکشن فنڈ میں پالیسی اینڈ اسٹریٹجی ڈائریکٹر ہے (برس گلبرٹ)
میں ڈینیئل پائپس سے شروع کرتا ہوں
ڈینیل! 7 اکتوبر کی چڑھائی (طوفان الاقصی مزاحمتی آپریشن) نے بہت سوں کو جھٹک کر رکھ دیا
بشمول امریکی حکومت، اسرائیلی رژیم اور پوری دنیا کے!
اسرائیل کیسے اس صورتحال میں جا پڑا؟
پہلے میں یہ بتا دوں کہ میرا کوئی کردار نہیں تھا اس حوالے سے۔۔
ہاہاہا۔۔!! ہاہا۔۔ (اسرائیلی شکست کا مذاق اڑاتے ہوئے)
میرا خیال ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ؛ جیسے جیسے اس کا نظام بڑھتا گیا، وہ خود مسلسل نااہل ہوتی چلی گئی
اگر صیہونی ڈیفنس فورسز کے آغاز پر چلے جائیں، 1880ء 90 کی دہائی اور اسرائیل کے پہلے 20 سالوں میں
تو آپ کم وسائل میں غير معمولی فوجی صلاحیت کا مشاہدہ کریں گے
مخالف فریق کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہ جو فلسطینی گروپس تھے یا چند ایک عرب ریاستیں
اسرائیلی غیرمعمولی تھے اور انہوں نے اپنی ایک ساکھ بنائی
میرا مطلب ہے کہ 3 فوجیں اور 6 دن۔۔
1973ء سے شروع کریں؛ اسرائیلی کچھ بھی ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے سکتے
ان کے وسائل بڑھتے چلے گئے
ایف پینتیس (F35) طیاروں کے پروں کے بارے سوچیں
انہوں نے 1973ء میں شدید غلطیاں کی ہیں
لیکن وہ ٹیکٹیکل غلطیاں تھیں
اور اس سے بڑی غلطیاں بعد میں انجام پائیں
میرے خیال میں ان کی تاریخ 1990ء سے 1993ء ہے جب سوویت یونین ٹوٹی اور عراق پر فتح ملی
تو اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں احساس پیدا ہو، جو اس وقت کی دستاویزات میں بھی بخوبی رقم ہوا ہے، یہ کہ اب اسرائیل کو مزید کوئی وجودی خطرہ لاحق نہیں
پھر ماحول محبت آمیز ہو گیا
شمعون پیریز تب لیڈ کر رہا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ حقیقی طاقت ٹینکوں میں نہیں بلکہ ‘شاعری’ میں ہے!
ہہہ ہہ ہا۔۔
اور پھر ‘آسلاکورڈ’ آئے۔۔ جو انتہائی حیرت انگیز تھے!
میرا مطلب ہے کہ آپ اپنے بدترین دشمن کو لا کر اپنا ہمسایہ بنا لیں؟
اور پھر 2005ء آیا اور غزہ سے عقب نشینی،یکطرفہ طور پر، کچھ بھی حاصل کئے بغیر اور حماس کو کچھ سالوں کے بعد حکومت بنانے کی اجازت دیتے ہوئے۔۔ اسے یہ بنیادی ڈھانچہ بنانے کی اجازت دیتے ہوئے۔۔
لہذا یہ 5 دہائیاں تباہ کن تھیں
جو اس حقیقت کے پیچھے چھپی رہیں کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی یہ اعلی قدیمی کارکردگی ہے پرانے زمانے سے
اور میرا خیال ہے کہ یہ وجہ ہے کہ اسرائیل اس صورتحال تک پہنچا!
آپ نے اور دوسروں نے بہت سی حيران کن حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے لیکن میں کہوں گا کہ سب سے بڑھ کر حماس نے سرپرائز دیا ہے۔۔ حماس سے ایسی توقع نہیں تھی!
ناقابل یقین ہے۔۔ میں کہوں گا کہ حماس نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے!
جاناتھن! 8 اکتوبر کے بعد سے ہم نے اسرائیل کو نہ صرف غزہ میں جنگ کی حالت میں دیکھا ہے بلکہ لبنان، شام، عراق، یمن و ایران میں بھی
اکتوبر کے (طوفان الاقصی مزاحمتی) حملے کے 8 ماہ کے بعد اب جنگ کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟
صحیح، دیکھیں یہ جنگ پیچیدہ ہے
اسرائیل مختلف محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے
حماس کا چیلنج ان چیلنجوں میں سے صرف ایک ہے کہ جن کا اسرائیل کو سامنا ہے
کیونکہ، پہلے تو امریکی دباؤ کی مہربانی کہ جس کے باعث اسرائیلی، دو ماہ سے رفح میں داخل نہیں ہو رہے
جس کا مطلب ہے کہ حماس کے پاس 2 ماہ کا وقت ہے کہ وہ اس آخری جنگ کے لیے تیار ہو جائے!
اس کا مطلب؛ سڑک کنارے بم (IED)، مزید پھندے اور منصوبے و چالیں ہیں کہ
جنہیں وہ (حماس) گزشتہ 2 ماہ سے تیار کر رہے ہیں
لیکن پھر یہاں ایک اور پیچیدگی بھی ہے کہ رفح کی دوسری جانب کیا چیز موجود ہے؟
وہ یقینا مصر ہے اور جو کچھ مصری میڈیا میں چھپ رہا ہے اور جس کا ابھی تک انکشاف ہوا ہے
مصری دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم کر سکتے ہیں، جو اسرائیل و ہمسایہ عربوں کے درمیان لمبے عرصے سے باقی رہنے والا امن معاہدہ ہے
درحقیقت مصری، اسرائیل کے خلاف پوری طرح سے پھٹ پڑنے پر خبردار کر رہے ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ کیوں!!
کیوں مصریوں کو ٹھیک اسی وقت غصے کا اتنا اظہار کرنا چاہیئے؟
اس کی سیدھی سی وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ
انہیں پریشانی ہے کہ فلسطینی غزہ سے نکل کر (صحرائے) سینا کے جزیرہ نما علاقے میں بھر جائیں گے!
لیکن آپ اوپری سطح کو جتنا کریدیں تو آپ کو اتنا ہی اس سطح کے نیچے موجود چیز کے بارے یقین ہو گا
اور وہ یہ ہے کہ، آپ ممکنہ طور پر سرنگوں کی شاہراہ پائیں گے کہ جو مصر کو غزہ سے ملا رہی ہے
کیسے (فلسطینی) جنگجو ایران و ترکی جیسے ممالک میں تربیت حاصل کر پائے اور پھر غزہ واپس پہنچے
یہ اس بات کی واحد وضاحت ہو سکتی ہے کہ کیسے حماس نے اسرائیل کے خلاف 5 جنگیں لڑیں، گذشتہ ڈیڑھ دہائی میں اور کسی نہ کسی طرح اپنے میزائل حملوں کی بھی دوبارہ منصوبہ بندی کر لی
اس کے لیے انہیں کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلنا تھا کہ جو بحیرہ روم سے ممکن نہ تھا
کہ جہاں اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے گرد سخت ترین سکیورٹی لگا رکھی ہے
اور یہ خود اسرائیل کے اندر سے بھی ممکن نہیں
ابھی گزشتہ روز ہی شاید آپ نے سنا ہو کہ رجب طیب اردوغان، ترک صدر نے کہا ہے کہ
ہم نے ترکی کے ہسپتالوں میں حماس کے 1 ہزار زخمی جنگجوؤں کا علاج معالجہ کیا ہے
وہ وہاں کیسے پہنچے۔۔؟ صحیح!
ہمیں، میرا خیال ہے کہ اس نقطے پر واپس آنا اور یہ سمجھنا ہو گا مصر نے دوہرا کھیل کھیلا ہے!
ہم اسی سوچ میں رہے کہ (مصری صدر) السیسی حماس کو تباہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں
اور یہ اسی طرح تھا، پانچ سال قبل، تقریبا 2018ء و 2019ء تک
ہمیں نہیں پتہ کہ خاص طور پر کیا پیش آیا،
لیکن لگتا ایسا ہے کہ وہ (السیسی) ”اثر پذیر” ہیں
قطریوں کی جانب سے، مسلم برادری، ایرانیوں یا خود حماس کی جانب سے۔۔
ہمیں معلوم نہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ انہوں (السيسى) نے کسی اور طرح دیکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے!
اور میرے خیال میں امریکہ کی جانب سے جو بہت زیادہ پیغامات آ رہے ہیں
کہ رفع میں نہ جاؤ اور انسانی امور پر توجہ کرو۔۔
میرا خیال ہے کہ یہ پوری تصویر کا صرف ایک حصہ ہے
میرا خیال ہے کہ امریکہ، یہ وائٹ ہاؤس اسرائیل و مصر کے درمیان مکمل لڑائی چھڑ جانے سے سخت خوفزدہ ہے
اور وہ اس وقت معاملے کو ”سلوشن ٹیپ” کے ساتھ
جوڑ کر رکھنے کی کوشش کر رہا ہے جو مجھے نہیں معلوم کہ کام کرے گی یا نہیں
اور میرا خیال ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے جب ہم آگے بڑھیں گے تو دیکھیں گے
لیکن اس وقت؛ ہاں، ہمارے بہت سے دوسرے محاذ بھی کھلیں گے
حوثی ہیں یمن میں جو کبھی کبھی اسرائیل پر بیلسٹک میزائل فائر کرتے رہتے ہیں
بہرحال اسرائیل نے ان میں سے، میرے خیال میں 99 فیصد کو مار گرانے میں
ابھی تک بڑی بہترین کارکردگی دکھائی ہے
لیکن یہ غير قابل تسلسل (ناپایدار) ہے اگر یونہی جاری رہتا ہے
کیونکہ ہر مرتبہ حملہ آور میزائلوں کو روکنے پر 10 لاکھ سے زائد ڈالر کا خرچ آتا ہے
آ۔۔ اور
یہ مسئلہ لمبے وقت کا ہے اور وہ چیز ہے کہ جس (کے بھاری اخراجات) کی اسرائیل تاب نہیں لا سکتا
اور نہ ہی اسرائیل اس صورتحال کی تاب لا سکتا ہے کہ لبنان سے آنے والے ڈرون طیاروں و راکٹوں کو روکتا رہے!
جبکہ وہ چیز جو ابھی تک ہم نے دیکھی ہے (لبنانی میزائل و ڈرون)
حزب اللہ کی صلاحیتوں کا صرف ایک انتہائی چھوٹا سا حصہ ہے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حزب اللہ کے زرادخانوں میں 2 لاکھ سے زائد میزائل و راکٹ موجود ہیں
بشمول نشانے کے عین اوپر مار کرنے والے گائیڈڈ میزائلوں اور دوسرے خطرناک ہتھیاروں کے
جنہیں اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے
البتہ اس وقت جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایرانی ”رنگ آف فائر” اسٹریٹجی ہے!
جس نے اسرائیل کو ایسی مختلف ”پراکسیوں” کے ذریعے گھیر رکھا ہے کہ جو مسلسل حملے کر رہی ہیں
اور اسرائیل اس وقت تک جنگ ختم نہیں کرے گا کہ جب تک وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں چلے جاتے!
آ۔۔ اور میرا مطلب ہے۔۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ۔۔
اسرائیلی درحقیقت اس جنگ کو شمال میں شروع کرنا چاہتے تھے۔۔
وہ اس (جنگ) کو غزہ میں شروع نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔
بائیڈن انتظامیہ نے ان (اسرائیلیوں) کو شمال سے واپس موڑا ہے!
کیونکہ یہ (لبنان کے خلاف جنگ) ایک انتہائی مشکل جنگ بننے جا رہی تھی
جو انتہائی سخت ہو رہی تھی جس کے لئے امریکہ کی مزید مدد کی ضرورت پڑنا تھا!
اور جیسے میں نے کسی سے سنا ہے کہ جو اس وقت خود کمرے میں موجود تھا کہ
بائیڈن نے کہا کہ وہ جنگ شروع نہ کرو کہ جس کو تم ہمارے بغیر ختم نہیں کر سکتے!!
پھر اس (بائیڈن) نے کہا کہ جنوب کی جانب جاؤ
لہذا اسرائیلی جنوب (رفح) کی جانب چلے گئے
اور وہ آپ کے بقول گول کے قریب پہنچ گئے لیکن انہیں (امریکیوں کی جانب سے) کہا گیا کہ یہ جنگ بھی ختم نہ کرو!
اور وہ کسی نہ کسی طرح اسے انجام دے رہے ہیں
اور یہ بھی مدنظر رکھیں کہ اس وقت جو کچھ رفح میں ہو رہا ہے، اس کے بارے ٹکڑوں پر مبنی طریقہ کار اپنایا گیا ہے
جہاں ابھی وہ (اسرائیلی) مشرقی رفح میں گھسے ہیں اور فیلاڈیلفیا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں
حتی یہ کہ میرے خیال میں وہ آہستہ آہستہ اس مقام تک جائیں گے جہاں میدان جنگ کا مرکز ہے!
اور جب یہ ہو گیا تو انہیں شمال (لبنان) کی جانب جانا ہے
البتہ اگر وہ شمال کی جانب گئے، تو یہ جنگ ”تباہ کن” ہو گی!
یہ جنگ ایسی ہو گی کہ جس میں اسرائیل کی بلند و بالا عمارتیں بھی منہدم ہو رہی ہوں گی!
اس جنگ میں آپ دسیوں ہزار لوگوں کو مرتا دیکھیں گے، میرا مطلب ہے کہ اسرائیلی فریق کے!
اگر یہ جنگ چھڑ جائے، مگر یہ کہ اسرائیل کوئی ایسا کام کرے (کہ یہ نقصان نہ ہو) لیکن ہم نہ صرف ایسے کسی کام کے لئے تیار نہیں بلکہ ہمیں ایسا کوئی کام ہوتا نظر بھی نہیں آ رہا
لیکن اگر یہ (جنگ) حقیقی مقابلے میں بدل گئی
تو اس کے نتیجے میں ہمیں اسرائیل کے اندر بہت زیادہ نقصان دیکھنا پڑے گا!
لیکن یہ (جنگ) یہیں نہیں رکے گی بلکہ آپ نہ بھولیں کہ
عراق و شام میں تقریبا ڈیڑھ درجن ”شیعہ عسکری تنظیمیں” موجود ہیں کہ جن کے ساتھ بھی نپٹنا ہو گا!
یمنی حوثیوں کے ساتھ بھی نپٹنا ہے اور
اور خود اسلامی جمہوریہ (ایران) کو بھی نہ بھولیں کہ جس نے حال ہی میں
300 میزائلوں و ڈرون طیاروں کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کیا ہے
اور آپ کو اس جگہ پر مزید توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں سے یہ (میزائل و ڈرون) آئے تھے (یعنی ایران) اور ابھی بھی ممکن ہے کہ وہ ”جوہری ہتھیاروں” کے بارے مزید کوئی بڑھک ماریں!
ہم ایک ایسی چیز کے درمیان میں ہیں۔۔ میرا خیال ہے کہ ہم واقعا ایک لمبی جنگ کے پہلے راؤنڈ میں ہیں
کہ جو ممکنہ طور پر مستقبل قریب میں شروع ہو جائے گی۔۔ لہذا ڈینیل کے تصور کی جانب پلٹتے ہوئے؛
اسرائیل کو وضاحت دینے کی ضرورت ہے کہ فتح کے لئے اس کی ”حکمت عملی” کیا ہے؟
اور نہ صرف حماس کے لئے!! وہ ایک چھوٹا گروہ ہے!
یا عبری میں کہتے ہیں ”کیسف کٹان”، وہ سب کچھ جو اسرائیل کو چاہیئے، میرے خیال میں یہ ہے کہ
ہمیں ایک بڑی تصویر کی ضرورت ہے کہ ہم اس سے کیسے ”مضبوط” و ”محفوظ” طریقے سے باہر نکل سکتے ہیں!!
ڈینیل!
اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میری شکایات کے تسلسل میں۔۔
جنوبی لبنان میں 1 لاکھ 50 ہزار تا 2 لاکھ میزائلوں و راکٹوں کی موجودگی
سے بڑھکر کوئی تعجب آور ڈرامائی وقوعہ نہیں ہو سکتا!
اسرائیلیوں نے ان (میزائلوں و راکٹوں) کی عظیم تعداد کو ایران سے،
شام کے ذریعے جنوبی لبنان آنے کی اجازت دی ہے
یہ غير قابل توصیف ہے!!
میں مسلسل پوچھتا رہا؛ یہ کیسے ہوا؟ کیوں تم لوگ ایسا کر رہے ہو؟
آپ کو ماوی مارمارا کشتی (Turkish ship MV Mavi Marmara) کا قصہ یاد ہے،
وہ بھی ذرا سے سیمنٹ کے لئے (Gaza flotilla raid)۔۔؟
(ان راکٹوں و میزائلوں کے مقابلے میں) کچھ بھی نہیں تھا!! حقیقت یہی ہے!
تھوڑے بہت سیمنٹ کے لئے اتنا بڑا ڈرامہ رچانے کے برعکس؛
دسیوں ہزار میزائلوں و راکٹوں کو روکنے کے لئے (اسرائیل کی جانب سے) کچھ بھی نہیں کیا گیا!! کچھ بھی نہیں!!
نا قابل یقین ہے!
میں صرف یہی کہوں گا، مکمل طور پر متفق ہوتے ہوئے کہ
آخری 8 سے 10 سالوں کے دوران اسرائیلیوں کی جانب سے (اسلامی ممالک کے خلاف) ایک کاوش کی گئی ہے
کہ جسے ”جنگوں کے درمیان کمپین (جنگ)” کہا جاتا تھا
آخری 8 سے 10 سالوں کے دوران اسرائیلیوں کی جانب سے (اسلامی ممالک کے خلاف) ایک کاوش کی گئی ہے
کہ جسے ”جنگوں کے درمیان کمپین (جنگ)” کہا جاتا تھا
اور اسرائیل اس وقت تک جنگ ختم نہیں کرے گا کہ جب تک وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں چلے جاتے!
آ۔۔ اور میرا مطلب ہے۔۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ۔۔
اسرائیلی درحقیقت اس جنگ کو شمال میں شروع کرنا چاہتے تھے۔۔
وہ اس (جنگ) کو غزہ میں شروع نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔
بائیڈن انتظامیہ نے ان (اسرائیلیوں) کو شمال سے واپس موڑا ہے!
کیونکہ یہ (لبنان کے خلاف جنگ) ایک انتہائی مشکل جنگ بننے جا رہی تھی
جو انتہائی سخت ہو رہی تھی جس کے لئے امریکہ کی مزید مدد کی ضرورت پڑنا تھا!
اور جیسے میں نے کسی سے سنا ہے کہ جو اس وقت خود کمرے میں موجود تھا کہ
بائیڈن نے کہا کہ وہ جنگ شروع نہ کرو کہ جس کو تم ہمارے بغیر ختم نہیں کر سکتے!!
پھر اس (بائیڈن) نے کہا کہ جنوب کی جانب جاؤ
لہذا اسرائیلی جنوب (رفح) کی جانب چلے گئے
اور وہ آپ کے بقول گول کے قریب پہنچ گئے لیکن انہیں (امریکیوں کی جانب سے) کہا گیا کہ یہ جنگ بھی ختم نہ کرو!
اور وہ کسی نہ کسی طرح اسے انجام دے رہے ہیں
اور یہ بھی مدنظر رکھیں کہ اس وقت جو کچھ رفح میں ہو رہا ہے، اس کے بارے ٹکڑوں پر مبنی طریقہ کار اپنایا گیا ہے
جہاں ابھی وہ (اسرائیلی) مشرقی رفح میں گھسے ہیں اور فیلاڈیلفیا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں
حتی یہ کہ میرے خیال میں وہ آہستہ آہستہ اس مقام تک جائیں گے جہاں میدان جنگ کا مرکز ہے!
اور جب یہ ہو گیا تو انہیں شمال (لبنان) کی جانب جانا ہے
البتہ اگر وہ شمال کی جانب گئے، تو یہ جنگ ”تباہ کن” ہو گی!
یہ جنگ ایسی ہو گی کہ جس میں اسرائیل کی بلند و بالا عمارتیں بھی منہدم ہو رہی ہوں گی!
اس جنگ میں آپ دسیوں ہزار لوگوں کو مرتا دیکھیں گے، میرا مطلب ہے کہ اسرائیلی فریق کے!
اگر یہ جنگ چھڑ جائے، مگر یہ کہ اسرائیل کوئی ایسا کام کرے (کہ یہ نقصان نہ ہو) لیکن ہم نہ صرف ایسے کسی کام کے لئے تیار نہیں بلکہ ہمیں ایسا کوئی کام ہوتا نظر بھی نہیں آ رہا
لیکن اگر یہ (جنگ) حقیقی مقابلے میں بدل گئی
تو اس کے نتیجے میں ہمیں اسرائیل کے اندر بہت زیادہ نقصان دیکھنا پڑے گا!
لیکن یہ (جنگ) یہیں نہیں رکے گی بلکہ آپ نہ بھولیں کہ
عراق و شام میں تقریبا ڈیڑھ درجن ”شیعہ عسکری تنظیمیں” موجود ہیں کہ جن کے ساتھ بھی نپٹنا ہو گا!
یمنی حوثیوں کے ساتھ بھی نپٹنا ہے اور
اور خود اسلامی جمہوریہ (ایران) کو بھی نہ بھولیں کہ جس نے حال ہی میں
300 میزائلوں و ڈرون طیاروں کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کیا ہے
اور آپ کو اس جگہ پر مزید توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں سے یہ (میزائل و ڈرون) آئے تھے (یعنی ایران) اور ابھی بھی ممکن ہے کہ وہ ”جوہری ہتھیاروں” کے بارے مزید کوئی بڑھک ماریں!
ہم ایک ایسی چیز کے درمیان میں ہیں۔۔ میرا خیال ہے کہ ہم واقعا ایک لمبی جنگ کے پہلے راؤنڈ میں ہیں
کہ جو ممکنہ طور پر مستقبل قریب میں شروع ہو جائے گی۔۔ لہذا ڈینیل کے تصور کی جانب پلٹتے ہوئے؛
اسرائیل کو وضاحت دینے کی ضرورت ہے کہ فتح کے لئے اس کی ”حکمت عملی” کیا ہے؟
اور نہ صرف حماس کے لئے!! وہ ایک چھوٹا گروہ ہے!
یا عبری میں کہتے ہیں ”کیسف کٹان”، وہ سب کچھ جو اسرائیل کو چاہیئے، میرے خیال میں یہ ہے کہ
ہمیں ایک بڑی تصویر کی ضرورت ہے کہ ہم اس سے کیسے ”مضبوط” و ”محفوظ” طریقے سے باہر نکل سکتے ہیں!!
ڈینیل!
اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میری شکایات کے تسلسل میں۔۔
جنوبی لبنان میں 1 لاکھ 50 ہزار تا 2 لاکھ میزائلوں و راکٹوں کی موجودگی
سے بڑھکر کوئی تعجب آور ڈرامائی وقوعہ نہیں ہو سکتا!
اسرائیلیوں نے ان (میزائلوں و راکٹوں) کی عظیم تعداد کو ایران سے،
شام کے ذریعے جنوبی لبنان آنے کی اجازت دی ہے
یہ غير قابل توصیف ہے!!
میں مسلسل پوچھتا رہا؛ یہ کیسے ہوا؟ کیوں تم لوگ ایسا کر رہے ہو؟
آپ کو ماوی مارمارا کشتی (Turkish ship MV Mavi Marmara) کا قصہ یاد ہے،
وہ بھی ذرا سے سیمنٹ کے لئے (Gaza flotilla raid)۔۔؟
(ان راکٹوں و میزائلوں کے مقابلے میں) کچھ بھی نہیں تھا!! حقیقت یہی ہے!
تھوڑے بہت سیمنٹ کے لئے اتنا بڑا ڈرامہ رچانے کے برعکس؛
دسیوں ہزار میزائلوں و راکٹوں کو روکنے کے لئے (اسرائیل کی جانب سے) کچھ بھی نہیں کیا گیا!! کچھ بھی نہیں!!
نا قابل یقین ہے!
میں صرف یہی کہوں گا، مکمل طور پر متفق ہوتے ہوئے کہ
آخری 8 سے 10 سالوں کے دوران اسرائیلیوں کی جانب سے (اسلامی ممالک کے خلاف) ایک کاوش کی گئی ہے
کہ جسے ”جنگوں کے درمیان کمپین (جنگ)” کہا جاتا تھا
آخری 8 سے 10 سالوں کے دوران اسرائیلیوں کی جانب سے (اسلامی ممالک کے خلاف) ایک کاوش کی گئی ہے
کہ جسے ”جنگوں کے درمیان کمپین (جنگ)” کہا جاتا تھا
لیکن یہاں ایک سوال ہے کہ جو ہم سب کو خود سے پوچھنا ہے کہ
ایران بالآخر کب حملہ کرے گا؟!
اور کس نقطے پر ایران اپنی پراکسیوں کو کہے گا کہ
وہ اسرائیل پر اپنے تمام اسلحے کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حملے کرنا شروع کر دیں؟!
اور یہی وہ چیز ہے کہ میرا خیال ہے کہ جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں!
یہ وہ سوال ہے کہ جس کا ہم جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ
کیوں ایران نے اپنی تمام طاقت ایک ساتھ ہی صرف نہیں کر دی!
آپ سوچیں کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ اس (ایران) نے ابھی تک اپنی پوری طاقت نہیں دکھائی!
لیکن میرا خیال ہے کہ اسرائیل کو اب ایک مشکل چوائس کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ
وہ کس نقطے کے بعد (ایران کے خلاف) جوابی کارروائی شروع کر سکتا ہے!
میرا خیال ہے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایران کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے!
میرا خیال ہے کہ جو کچھ میرے لئے واضح ہے، یہ ہے کہ
اس صورتحال کو ختم کرنے کے لئے اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے،
ایران کو دباؤ محسوس کروانے اور ایران کو درد پہنچانے کی کوشش ہے
کیونکہ ایران ہی اس سب کچھ کا مرکز ہے اور اسے اس کی سنجیدہ قیمت چکانی ہے!
جو کچھ واشنگٹن میں چل رہا ہے اور یروشلم (قدس شریف) میں بھی،
کہ جہاں صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی حکمت عملی ”حماس پر مکمل فتح” ہونی چاہیئے
لیکن یہاں واشنگٹن میں اور حتی یروشلم میں بھی یہ سوال ہے کہ ”اس کا مطلب کیا ہے؟ ”
ڈینیل! آپ کا نظریہ ‘اسرائیلی حکمت عملی میں اپنے دشمنوں سے متعلق ناکام نظریہ’ (Failed Conceptia) تھا
اسرائیل ابھی جو کچھ غزہ میں کر رہا ہے اور (جنگ کے) بعد کے دنوں سے متعلق
آئندہ کی پالیسی کے بارے اسرائیلی فیصلہ سازی کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اسے جو کچھ میں قرار دے سکتا ہوں ”مکمل کنفیوژن” ہے!
اندرونی دباؤ سمیت امریکہ کے اور دوسری جگہوں کے دباؤ نے (اسرائیلی رژیم کو) تقریبا مفلوج کر کے رکھ دیا ہے!
جسے ہم (صہیونی رژیم کی جانب سے) فیصلہ سازی کے انتہائی سست ہو جانے میں دیکھ سکتے ہیں
اصطلاح کونسپشیا (Conceptia) کہ جو 1973ء کی جنگ کے بعد سامنے آئی
جب اس کمیشن، کہ جس نے یہ تحقیق کی تھی کہ کیا غط ہوا
اور کیوں اسرائیل کو اچانک یہ دن دیکھنا پڑا؛ اس نوٹ تک پہنچا کہ
شامی و مصری فورسز اس وقت تک اسرائیل پر حملہ نہیں کریں گی
جب تک انہیں نئے روسی لڑاکا طیارے نہ مل جائیں
اور جب تک یہ ہو گا، اسرائیل اپنا بندوبست کر لے گا
صحیح!
شامی و مصری فورسز نے ”وہ لینے سے پہلے ہی” حملہ کر دیا تھا!
اور اس مرتبہ (طوفان الاقصی سے متعلق) تصور (Conceptia) یہ تھا کہ؛
حماس نرم ہو جائے گی۔۔ اقتصادی پیشرفت کی جانب مزید جھکے گی۔۔ اچھی حکمرانی کی جانب جائے گی
کیونکہ یہ اس کے پھلنے پھولنے، سنجیدہ ہونے اور کم نظریاتی ہونے کا وقت ہے!
اور یہی اس چیز کے پیچھے موجود وہ بنیادی تصور تھا کہ جس کا نتیجہ 7 اکتوبر (طوفان الاقصی) کی صورت میں نکلا
میں دیکھ رہا ہوں کہ کونسپشیا (Conceptia) ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے
آپ اسرائیل میں اٹھتی آوازیں سن رہے ہیں
موثق آراء سامنے آ رہی ہیں اور حکومتی عہدیدار اس نظریئے کی جانب واپس پلٹ رہے ہیں کہ
حماس نرم ہو جائے گی۔۔ خطرہ نہیں رہے گی۔۔ اگر صرف غزہ میں بھاری رقوم بھیج دی جائیں!
لہذا میں (صیہونی رژیم کے) شش و پنج کا ایک دور دیکھ رہا ہوں اور
نیتن یاہو مسلسل واضح طور پر ”فتح”، ”مکمل فتح” اور ”مطلق فتح” کے بارے بات کر رہا ہے
لیکن میں نہیں دیکھتا کہ اس (نیتن یاہو کے دعوے) میں کوئی ذرہ بھر حقیقت بھی ہے!
تو جاناتھن! اگر آپ گول کے قریب ہوں
اور اگر 6 بٹالین باقى بچی ہوں
اب حماس کے عسکری ڈھانچے کو ختم کرنے کے لئے
”باخت نصریہ” اور ”فرنٹ رفح” ہی اسرائیلی فوج (IDF) کے سامنے آخری چیلنج ہو
تو فتح کے حصول کے لئے اگلی چال کیا ہو گی؟
اگر ایسا ہو تو۔۔ میرا خیال ہے کہ (صیہونی) ابھی پہلے راؤنڈ کے درمیان ہی ہیں، اگر زیادہ ہو تو!
ہہہ ہہہ ہہہ۔۔
یہاں تک جتنا بھی وقت لگا ہے!
یہ جنگ حماس کے خلاف نہیں!
اور میرا خیال ہے کہ سب کو یہ جان لینا چاہیئے کہ حماس صرف ایک ”پراکسی” ہے
اور وہ بھی مبینہ ”مزاحمتی محاذ” کے میدان میں کوئی طاقتور پراکسی نہیں!
جس پر میں معذرت خواہ ہوں، میں خود اس اصطلاح (مزاحمت) کے خلاف ہوں،
کیونکہ اس سے اسرائیلی معلوم ہوتے ہیں کہ جو خطے میں ایران کی مجموعی پیشقدمی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں،
لیکن آپ اس اصطلاح کو برا نہ مانیں!
اسرائیل کو شمال (لبنان) کی جانب جانے کی ضرورت ہے!
اور اسے حزب اللہ کے ساتھ جنگ لڑنے کی ضرورت ہے!
کیونکہ لاکھوں اسرائیلیوں کو ان کے گھروں اور شمالی بستیوں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے