’ٹیکس کے لیے کوئی مقدس گائے نہیں:‘ وفاقی بجٹ آج پیش ہو رہا ہے

news-1718079322-4338.jpg

پاکستان کی وفاقی حکومت آج (بدھ کو) 18 کھرب روپے سے زائد کا اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے، جو مالیاتی سال 25-2024 کے لیے ملکی اخراجات اور آمدن کی عکاسی کرے گا۔وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے منگل کو مالی سال24۔2023 کے اقتصادی سروے کے اجرا کے موقعے پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جاری مالی سال کے دوران آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے برعکس پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 2.4 فیصد بڑھی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جاری مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کا حجم 11 فیصد اضافے کے بعد 338 ارب ڈالر سے بڑھ کر 375 ارب ڈالر ہو گیا جبکہ مہنگائی کی شرح 11.8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خیرات سے فلاحی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں چل سکتا، ملک چلانے کے لیے ٹیکس ضروری ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق کوئی مقدس گائے نہیں ہے اور ملکی معاملات کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔گذشتہ روز اقتصادی سروے پیش کیے جانے کے بعد آج شام کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جائے گا۔ جہاں عوام کے ہر طبقے کی نظریں بجٹ پر مرکوز ہوتی ہیں، وہیں انہیں حکومت سے ٹیکسز کی مد میں ملنے والے ’ریلیف‘ یا ’بوجھ‘ کو لے کر فکر بھی ہوتی ہے۔

بجٹ بنتا کیسے ہے؟

سوال یہ اٹھتا ہے کہ بجٹ کا تعین کون اور کیسے کرتا ہے؟ بجٹ پر کون کون تجاویز دے سکتا ہے؟ کیا ان تجاویز کی کوئی قانونی حیثیت ہے؟ بجٹ کن مراحل سے گزر کر بنتا ہے؟ اور کس طرح لاگو ہوتا ہے؟سالانہ بجٹ وزارت خزانہ تیار کرتی ہے۔ وزارت کے فائنانس ڈویژن میں بجٹ ونگ بجٹ مرتب کرتا ہے۔ پاکستان میں مالی سال یکم جولائی سے شروع ہو کر اگلے سال 30 جون پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق بجٹ کی تیاری کا آغاز وزارت خزانہ صوبائی حکومتوں، ٹریڈ یونینز، کاروباری انجمنوں اور سول سوسائٹی کی مشاورت سے کرتی ہے۔اکتوبر یا نومبر کے مہینے میں وزارت خزانہ کی طرف سے تمام وزارتوں اور حکومتی محکموں کو بجٹ کال سرکلر جاری کیا جاتا ہے۔

سرکلر کا مقصد وزارتوں اور ڈویژنز سے آئندہ مالی سال کے اخراجات اور آمدنی سے متعلق اندازے یا تجاویز طلب کرنا ہوتا ہے، جو فروری تک موصول ہوتے ہیں۔ اس کے بعد تمام وزارتیں اپنی اپنی بجٹ تجاویز وزارت خزانہ کو بھیجتی ہیں۔وزارت خزانہ ان تجاویز کو جمع کر کے بجٹ مسودہ یعنی ڈرافٹ بنا کر کابینہ کو بھیج دیتی ہے۔ وفاقی کابینہ بجٹ کے مسودے میں تبدیلیاں یا ترامیم کر سکتی ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۔بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جو اپنی سفارشات بجٹ میں شامل کروا سکتی ہے۔

عموماً حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن ایوان کے اندر اپوزیشن ہی ہوتی ہے جو حکومتی بجٹ یا تجاویز سے اکثر اتفاق کرتے ہوئے نظر نہیں آتی۔وفاقی بجٹ کی منظوری کے لیے حکومت کو ایوان میں موجود اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔یاد رہے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے بجٹ مسودے کو منی بل بھی کہا جاتا ہے۔ آئین پاکستان کے تحت بجٹ مسودے کی ابتدا صرف قومی اسمبلی سے ہی ہوتی ہے۔قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے چند گھنٹوں بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اسے پیش کیا جاتا ہے، جو فوری طور پر بجٹ کو خزانہ کمیٹی کے سپرد کر دیتا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اپنی تجاویز مقررہ وقت میں تیار کرتی ہے جس کے بعد سینیٹ 14 روز کے اندر بجٹ پر سفارشات کو حتمی شکل دے کر قومی اسمبلی کو بھیجتی ہے۔ تاہم حکومت سینیٹ کی بھیجی گئی تجاویز پر عملدرآمد کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔گذشتہ روز پارلیمان میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی کے اجلاس ہوئے جن میں دونوں کمیٹیوں کے چیئرمین منتخب کیے گئے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قرار پائے جبکہ سینیٹر قرۃ العین مری قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی چیئرپرسن منتخب کی گئی ہیں۔قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد اسے صدر مملکت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جنہوں نے10 روز کے اندر بجٹ کی منظوری دینا ہوتی ہے۔صدر سے باضابطہ منظوری کے بعد یہ آئندہ مالی سال کا بجٹ بن جاتا ہے اور یکم جولائی سے نافذ ہو جاتا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے