2200سال بعد

قدیم اور جدید‘ جدید علاقوں میں بلندوبالا عمارتیں‘ کھلی اور صاف ستھری سڑکیں اور پل اور انڈر پاس ہیں‘ درجنوں مالز اور شاپنگ اسٹریٹ بھی ہیں‘ صنعتی شہر ہے‘ الیکٹرک گاڑیوں کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بی وائی ڈی کی سب سے بڑی فیکٹری شیان سے ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ اس کا اثر شیان کی معیشت پر نظر آتا ہے جب کہ قدیم حصے میں اڑھائی ہزار سال پرانے زمانے بہتے اور سانس لیتے ہیں‘ آپ اگر بجلی بند کر دیں تویہ حصہ آپ کو چند منٹوں میں ماضی میں لے جائے گا۔
میں دس سال بعد ایک بار پھر ٹیراکوٹا وارئیرز کے سامنے کھڑا تھا‘ میری پشت پر سرسبز پہاڑ تھا‘ یہ دور سے گھوڑے جیسا دکھائی دیتا تھا اور سامنے ٹیرا کوٹا وارئیرز کا ٹکٹ آفس تھا‘ اس دن بارش ہو رہی تھی‘ ہم چالیس لوگ چھتریاں لے کر بارش میں بھیگتے ہوئے ٹکٹ آفس کے سامنے کھڑے تھے‘ ٹکٹ آفس اور سائیٹ ایک دوسرے سے دور ہیں لہٰذا سیاحوں کو الیکٹرک گاڑیوں میں بٹھا کر سائیٹ پر لایا جاتا ہے‘ یہ تین کمپلیکس پر مشتمل ہے‘ ہم جوں ہی پہلے ہال میں داخل ہوئے ہم میسمرائز ہو کر رہ گئے‘ ہال بیس کنال لمبا تھا جس کی چاروں سائیڈز پر برآمدے تھے اور نیچے بارہ سے پندرہ فٹ گہرائی میں مٹی کے ٹیلوں کے درمیان سیکڑوں مجسمے کھڑے تھے‘ تمام مجسمے فوجیوں کے تھے اور وہ لڑائی کے لیے تیار کھڑے تھے‘ سب کے چہرے اور قد کاٹھ ایک دوسرے سے مختلف تھے‘ وہ یونیفارم میں تھے اور ان کے گھوڑے بھی ان کے ساتھ تھے‘ کھدائی کا کام بھی چل رہا تھا‘ آثار قدیمہ کے ماہرین چھوٹے بڑے اوزاروں کے ساتھ زمین کھود کر مجسمے نکال رہے تھے اور انھیں برش سے صاف کر رہے تھے‘ بائیس سو سال مٹی میں دفن رہنے کی وجہ سے مجسمے شکست وریخت کا شکار تھے۔
ان پر ایسا پینٹ بھی تھا جسے جب آکسیجن لگتی ہے تو وہ مجسمے کو توڑنا شروع کر دیتی ہے چناں چہ ماہرین بت نکال کر چار گھنٹوں کے اندر اس پر ایسے کیمیکل لگا دیتے ہیں جو انھیں ٹوٹنے سے بچا لیتا ہے‘ پہلے کمپلیکس میں انفنٹری کے بت ہیں‘ یہ دو بدو لڑائی کے ماہرین تھے اور ہاتھ اور پاؤں سے لڑتے تھے‘ انفنٹری کے بعد گھڑ سوار فوج کے بت ہیں لیکن یہ گھوڑوں پر سوار نہیں ہیں‘ گھوڑے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں مگر ان کی پوزیشن سے محسوس ہوتا ہے یہ کسی بھی وقت چھلانگ لگا کر گھوڑوں پر سوار ہو جائیں گے‘ بت تراش اس قدر ماہر تھے کہ انھوں نے گھوڑوں کے مسلز اور بال تک تراش دیے‘ گھوڑوں کے دانت نظر آ رہے ہیں‘ کمپلیکس کے مجسمے زلزلوں کی وجہ سے متاثر ہوئے‘ ان کے بازو اور سر وقت کے بے رحم ہاتھوں نے گرا دیے لیکن آج کے ماہرین نے انھیں دوبارہ گردن پر فٹ کر دیا‘ کمپلیکس کے چار حصے ہیں‘ پہلے حصے کے بت اپنے قدموں پر کھڑے ہیں‘ دوسرے حصے میں بتوں کی ری کنسٹرکشن ہوتی ہے جو بت جہاں سے نکلتا ہے وہاں ایک نمبر لگا دیا جاتا ہے‘ مجسمے کو بھی وہی نمبر الاٹ کر دیا جاتا ہے۔
اسے دوبارہ قدموں پر کھڑا کرنے کے بعد اس کی اصل جگہ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ بنانے والوں نے بتوں کو چار حصوں میں بنایا‘ ٹانگیں سالڈ ہیں‘ پیٹ سے گردن تک دوسرا پیس ہے اور یہ اندر سے خالی ہے‘ بازو اور سر الگ الگ بنائے گئے تھے اوریہ بھی اندر سے خالی ہیں‘ انھیں بعدازاں بھٹی پر پکایا گیا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا گیا‘ ٹانگیں سالڈ ہونے کی وجہ سے بت پاؤں پر کھڑے رہے‘ وہاں بے شمار ایسے بت بھی تھے جنھیں ری پیئرنگ کی ضرورت نہیں پڑی‘ یہ جوں کے توں ہیں‘ کمپلیکس کے آخری حصے میں آرکائیو ہے‘ وہاں تمام بتوں اور ان کے پارٹس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے‘ سائیٹ سے نکلنے والی کوئی چیز حتیٰ کہ مٹی تک کمپلیکس سے باہر نہیں جا سکتی‘ ورکر آتے ہیں‘ کام کرتے ہیں اور انھیں کڑی تلاشی کے بعد خالی ہاتھ واپس بھیجا جاتا ہے۔
ہال نمبر ایک کے ساتھ ہال نمبر دو ہے‘ یہ بادشاہ کا آفس تھا‘ اس میں جرنیلوں اور کمانڈرز کے بت ہیں‘ یہ پہلے ہال کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹا ہے‘ اس کی کھدائی ابھی مکمل نہیں ہوئی تاہم اس میں موجود بتوں کے کپڑوں‘ جوتوں‘ چہرے اور سر کے بالوں سے اندازہ ہوا یہ ایلیٹ لوگ تھے‘ اس کمپلیکس سے نکلنے والے گھوڑوں کے بت بھی خصوصی تھے‘ اس قسم کے گھوڑے قدیم چین میں شاہی خاندان اور امراء استعمال کرتے تھے‘ اس بلاک میں مٹی کے مختلف بلاکس ہیں‘ میں نے گائیڈ سے پوچھا یہ پورا سیکشن کیوں نہیں کھودا گیا‘ اس کا جواب تھا کمپلیکس بہت حساس ہے‘ ماہرین کا خیال ہے اسے آہستہ آہستہ کھودنا چاہیے‘ تھوڑی سی رفتار بڑھانے سے یہ پورا ضایع ہو جائے گا‘ کمپلیکس ٹو میں تصویریں بنوانے کا اسٹوڈیو بھی ہے‘ اسٹوڈیو میں ٹیرا کوٹا کے چند مجسمے رکھے ہیں‘ یہ رپلیکا ہیں۔
سیاح ان پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں پس منظر میں دور دور تک مجسمے نظر آتے ہیں یوں جب تصویر پرنٹ ہو کر آتی ہے تو اس میں دور دور تک ٹیرا کوٹا وارئیرز نظر آتے ہیں اور سیاح ان کے درمیان کھڑا ہوتا ہے‘ آج سے دس سال پہلے بھی اس تصویر کی قیمت سو یوآن تھی اور آج بھی‘ گو اس وقت سو یوآن سات سو روپے کے برابر تھے لیکن آج یہ چار ہزار روپے میں آتے ہیں‘ ٹیراکوٹاوارئیرز کا تیسرا کمپلیکس مٹی کی مکمل ڈھیری ہے‘ اس میں ابھی کھدائی نہیں ہوئی تاہم اس کے برآمدے میں چار مکمل ٹیرا کوٹا وارئیرز ہیں‘ یہ شیشے کے کیس میں رکھے ہیں اور دیکھنے والوں کو دم بخود کر دیتے ہیں‘ پہلا مجسمہ کسی جنرل کا ہے‘ اس نوعیت کے سات مجسمے کمپلیکس سے برآمد ہوئے تھے۔
یہ بادشاہ کے جنرل تھے‘ وہ مضبوط کاٹھی کا چھ فٹ اونچا شخص تھا‘ اس کی زرہ بکتر لوہے کی تھی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر بنائی تھی‘ داڑھی کے بال گندھے ہوئے تھے اور سر کے بال دو تین منزلہ تھے‘ چہرے پر غرور تھا‘ وہ ایک گھٹنا زمین پر ٹیک کر بیٹھا تھا‘ جوتے کے سول میں چھوٹے چھوٹے سیکڑوں دائرے تھے اور اس نے لمبی قمیض اور تنگ ٹروزر پہن رکھا تھا‘ آپ یہاں یہ یاد رکھیں یہ مجسمہ بھی مٹی کا بنایا گیا تھا اور اسے بھی پکایا گیا تھا اور اس کے جسم پر زرہ بکتر ہو‘ کپڑے ہوں یا جوتے یہ سب مٹی کے تھے لیکن انھیں دیکھ کر لوہے اور چمڑے کا احساس ہوتا تھا‘ دوسرا مجسمہ کسی گارڈ کا تھا اور وہ سیدھا کھڑا تھا جب کہ تیسرا مجسمہ گھوڑے کا تھا اور اس کی تمام جزئیات بھی عقل کو حیران کر دیتی ہیں‘ ٹیرا کوٹا وارئیرز کے تمام ہتھیار لکڑی کے بنائے گئے تھے تاہم وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے‘ انھیں زمانے کے گھن نگل گئے چناں چہ ان تمام کمپلیکسز میں کوئی ہتھیار نہیں ملا‘ ماہرین 50 برسوں میں صرف تین کمپلیکس کھود سکے جب کہ یہاں اس قسم کے 600 کمپلیکس ہیں‘ علاقے میں درجن بھر گاؤں تھے۔
انھیں یہاں سے ہٹا دیا گیا‘ اب 54 مربع کلومیٹر کا یہ علاقہ عالمی ورثہ ہے‘ بادشاہ چن شی ہونگ کا مقبرہ کمپلیکس سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے اس کی فوجیں مقبرے کی حفاظت کر رہی ہیں‘ بادشاہ کا مقبرہ اہرام کی طرح ہے اور یہ ابھی تک کھولا نہیں گیا‘ ہم نے دور سے اس کی زیارت کی‘ کمپلیکس سے ذرا سے فاصلے پر ٹیرا کوٹا کا شاپنگ سینٹر ہے جس میں کافی شاپس‘ ریستوران اور سووینئر شاپس ہیں‘ ٹیرا کوٹا واریئر میں جا کر احساس ہوتا ہے دنیا کی ہر چیز فانی ہے لیکن اگر انسان کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے جائے جس کی مثال دنیا میں نہ ملتی ہو تو وہ رہتے زمانوں تک زندہ رہ جاتا ہے‘ بادشاہ چن شی ہونگ اور اس کی سلطنت بھی وقت کی گرد میں گم ہو گئی لیکن ٹیرا کوٹا وارئیرز نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا اور اس پر اب روزانہ تحقیق ہو رہی ہے‘ بے شک انسان اگر زندگی میں طویل عرصہ تک پڑھی جانے والی کتاب لکھ دے یا پھر کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے دے جس پر کتابیں لکھی جائیں تو اس کی عمر لمبی ہو جاتی ہے اور بادشاہ چن شی ہونگ نے ایک ایسا ہی کارنامہ سرانجام دیا تھا جس پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں اور ہزاروں ابھی لکھی جائیں گی۔
ٹیرا کوٹا وارئیرز کے بعد ہماری منزل ہواکنگ پیلس (Huaqing Palace) تھی‘ یہ ٹیرا کوٹا سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ’’لی کی پہاڑیوں‘‘ میں واقع ہے‘ علاقے میں گرم پانی کے چشمے ہیں‘ دو ہزار سال قبل لوگ یہاں غسل کے لیے آتے تھے‘ ٹنگ سلطنت کے بادشاہ تھائے زونگ (Taizong) کی تین ہزار کنیزیں تھیں لیکن اس کا دل یانگ گوفئے (Yang Gufei) کی ذلفوں میں الجھا ہوا تھا‘ بادشاہ نے 723ء میں پہاڑوں کے دامن میں گرم پانیوں کے چشموں پراس کے لیے انتہائی خوب صورت محل بنایا‘ یہ داستان شاہ جہاں اور ممتاز محل سے ملتی جلتی تھی‘ گو یہ محل تاج محل نہیں لیکن اس کے باوجود لائق دید اور قابل تعریف ہے‘ یہ جنت کا ٹکڑا تھا اور ہم ٹیرا کوٹا وارئیرز کے بعد اس جنت کے دروازے پر کھڑے تھے