سمبڑیال سے ایک پیغام

2728461-doctorfarooqaadil-1729435788-600x450.webp

آئی 8 کے مصروف مرکز کے ایک گوشے کو دیکھ کر نوین خوشی سے نہال ہو گئی۔ یوں اسے  علاقے کی خوب صورتی، صفائی اور حسن انتظام کی تعریف کے لیے آذر بائیجان کے دل کو موہ لینے والے دارالحکومت کی مثال ہی مناسب محسوس ہوئی جہاں تھوڑے دن پہلے ہی وہ  ریان کے ساتھ گئی تھی۔

نوین کی بات سے تحریک پا کرسعد اور نور کو اپنے شہر اور اس کے گھنٹہ گھر کی یاد آئی۔ گھنٹہ گھر تو سب جانتے ہیں کہ فیصل آباد کی پہچان ہے لیکن یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ بیس پچیس برس ہوتے ہیں، آٹھ بازاروں اور ان بازاروں میں مرکزیت رکھنے والے مینار کو  باہر سے آنے والے تو کجا شہر والے بھی نہیں دیکھ پاتے تھے۔ گھنٹہ گھر کی دیدہ زیب عمارت سموگ کے بادلوں میں کہیں تحلیل نہیں ہو گئی تھی بلکہ کاروبار کے پھیلاؤ، بڑھتی ہوئی تجاوزات اور بے ہنگم ٹریفک کے باعث وہاں جانا نا ممکن ہو چکا تھا لیکن آج منظر بدل چکا ہے۔

شہر کے تاریخی علاقوں خاص طور پر ڈاؤن ٹان کو دنیا بھر میں صاف ستھرا رکھا جاتا ہے اور دید کے قابل بنایا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں نہ بے ہنگم ٹریفک ہوتا ہے اور نہ پتھارے دار فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر قبضہ جما کر آمد و رفت کو بند کر پاتے ہیں۔ یہ خرابی صرف ہمارے یہاں ہی تھی، خاص طور پر اس زمانے میں اس خرابی میں مزید اضافہ ہو گیا جب جنرل مشرف اور ان کے قابل مشیر تنویر نقوی نے پاکستان کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ سسٹم کو تباہ کیا۔ اس کے بعد عمران خان نے منتخب بلدیاتی اداروں کو تحلیل کر کے ہمارے قصبہ و دیہات ہی نہیں شہروں کو بھی کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا۔ اس تباہی کا اندازہ لاہور کی صورت حال سے کیا جا سکتا ہے۔

میاں محمد شہباز شریف نے اپنی وزارت اعلی کے زمانے میں صرف لاہور ہی نہیں پورے پنجاب کے شہروں کو صاف ستھرا اور خوب صورت بنانے کے لیے بہت محنت کی تھی جس کے نتیجے میں نہ صرف شہروں کا حسن دوبالا ہوا بلکہ ماحولیات میں بھی بہتری آئی لیکن عمران خان نے حکومت بناتے ہی منتخب بلدیاتی کو تحلیل کر کے یہ ساری محنت تباہ کر دی۔

حالت یہاں تک جا پہنچی کہ لاہور میں ویسٹ مینجمنٹ کے ترک ادارے کا معاہدہ بھی یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا جس پر ہمارے ترک بھائی جائز طور پر دکھی ہوئے اور اس وقت کے ترک سفیر جناب مصطفی یورداکول نے ہمارے دوست محمد حسان کے شان دار ادارے ترکیہ اردو کی تقریب میں ڈپلومیٹک انداز میں اس پر گلہ بھی کیا۔ یہ طرز عمل تھا جس کی وجہ سے پنجاب کے شہروں کا انتظام ہاتھ سے نکل گیا۔ اس قسم کے حالات تھے جن میں محترمہ مریم نواز شریف نے پنجاب کی حکومت سنبھالی۔

مریم نواز نے وزیر اعلی منتخب ہونے کے فورا ہی بعد انتظامیہ کو ہدایت کی کہ  پنجاب کے کوچہ و بازار اور شہروں میں صفائی یقینی بنائی جائے۔ کچرے کے ڈھیر تو کہیں دکھائی نہیں دینے چاہئیں۔ صفائی کا ہدف حاصل کر لینے کے بعد مریم نواز نے صوبے کے بڑے شہروں کے بے ہنگم ٹریفک اور پتھارے داروں کی قبضہ گیری پر توجہ دی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ فیصل آباد کے ڈان ٹان کو شیشے کی طرح صاف ہی نہیں کر دیا گیا بلکہ انھیں قابل رسائی بھی بنا دیا گیا ہے۔

وہ بازار جہاں صبح سے شام تک گاڑیاں پھنسی رہتی تھیں، وہی بازار اب کھلے کھلے اور قابل دید ہو گئے ہیں۔ یہ طے کر دیا گیا ہے کہ گاڑیاں کہاں تک جا سکتی ہیں اور کن علاقوں میں خریداری اور سیر کے لیے آنے والے لوگوں کو پیدل آنا ہے۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ میری قابل احترام ساتھی اور ممتاز صحافی عمار مسعود کی اہلیہ شنیلا مسعود نے ایک روز بتایا کہ راول پنڈی میں خوب صورت بینک اسکوائر ہی نہیں، بنی، راجابازار، اردو بازار،  صدر بازار اور چائنا مارکیٹ جیسے علاقوں میں جہاں جانا ہی سوہان روح تھا، وہاں نہ صرف خریداری آسان ہو گئی ہے بلکہ سیاح بھی وہاں مزے سے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فیصل آباد میں تو ڈاؤن ٹان کی سیاحت کے لیے گالف گاڑیاںبھی چلا دی گئی ہیں جن کی وجہ سے فیصل آباد ڈان ٹان کی شان و شوکت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔

مریم نواز نے صرف شہروں کو صاف اور خوب صورت ہی نہیں بنایا بلکہ عوام کی بہبود کے لیے بہت سے غیر معمولی منصوبے شروع کیے ہیں۔ ان میں بچیوں کی شادی بیاہ کے لیے دھی رانی پروگرام ہے۔ ایئر ایمبولینس سروس ہے، پنک بٹن ہے، مریم کی دستک ہے،  خواتین کو با اختیار بنانے کے پروگرام ہیں۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کے پروگراموں کے ساتھ زراعت کی اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے  پروگرام بھی شروع کیے گئے ہیں۔ عوام کو مہنگی بجلی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے کم امدن والے شہریوں میں سولر پلیٹیں تقسیم کی گئی ہیں۔

مریم حکومت کے ان فیصلوں نے پنجاب کا سیاسی منظر نامہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ کسی صوبے میں اگر یوں دیکھتے ہی ماحول بدل جائے، وہاں سمبڑیال کے عوام اگر چالیس ہزار کے قریب ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلی کے امیدوار کو کام یاب بنا دیں تو اس ہر حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔

انتخابی کام یابی کی اصل بنیاد کارکردگی ہی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے صوبے کی کارکردگی بھی کچھ کم نہ تھی لیکن وفاقی حکومت بھی اپنی  کارکردگی کو فخر کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کرنے کا حق رکھتی ہے۔ شریف کی حکومت نے ملک کو صرف ڈیفالٹ سے ہی نہیں بچایا بلکہ راکٹ کی رفتار سے پرواز کرتے ہوئی مہنگائی کی شرح کو بھی بریک لگائی ہے۔ انتخابی کام یابی کے لیے یہ کارکردگی بھی کم نہ تھی لیکن بھارتی جارحیت کا بہادری سے مقابلہ اور مؤثر سفارت کاری نے اس حکومت کی کلغی میں سنہری پر لگا دیے ہیں۔ اس بعد عوام اگر مسلم لیگ ن کی صندوقچی ووٹوں سے بھر دیں تو اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔

افتخار احمد سندھو کا افتخار نامہ

کامیاب لوگوں کی ایک بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اپنی منزل پا لینے کے بعد وہ دوسروں کو اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ کام خود نوشتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ روایت کمزور رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں کامیاب لوگوں نے اس پر توجہ کی ہے اور بہت سی خود نوشتیں سامنے آئی ہیں۔ان میں ایک افتخار احمد سندھو کی آپ بیتی ‘ افتخار نامہ’ بھی ہے۔ افتخار صاحب ایک بڑے ڈیولپر ہیں۔ انھیں پراپر ٹی ٹائکون کہنا بھی مناسب ہو گا۔ انھوں عملی زندگی کا آغاز ہم عام لوگوں کی طرح سے ہی کیا ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی اور ان کا شمار ملک کے بڑے ٹاؤن پلانرز میں کیا جانے لگا۔ یہ کامیابی انھوں نے کیسے حاصل کی ہے۔

ہر کاروباری محنتی ہوتا ہے لیکن ہر محنتی شخص کے حصے میں وہ کامیابی نہیں آتی ہے جو سندھو صاحب کو ملی۔ ‘افتخار نامہ’ یہی کہانی بیان کرتی ہے جسے علامہ عبد الستار عاصم کے ادارے قلم فاؤنڈیشن نے روایتی اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ان کی محنت کا انداز کیا تھا؟ اس کا اندازہ ان کی کتاب کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ تصنیف و تایف افتخار صاحب کا شعبہ نہیں لیکن انھوں نے جب فیصلہ کر لیا کہ وہ صاحب کتاب بنیں گے تویہ خواب حقیقت میں ڈھل گیا۔ اس میں انھیں کامیابی ہوئی۔ کیسے؟ کیا یہ مشکل کام انھوں نے کسی گھوسٹ رائیڑکی مدد سے کیا جیسے صاحبان ثروت عام طور پر کیا کرتے ہیں؟ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر گز نہیں۔ یہ کتاب انھوں نے خود لکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صاحب مطالعہ بھی ہیں اور پختہ ارادے کے مالک بھی۔ یہی ان کی کامیاب کا راز ہے۔

وہ لوگ جو اپنا کیرئیر کاروبار میں بنانا چاہتے ہیں، انھیں افتخار سندھو صاحب کی یہ آپ بیتی ضرور پڑھنی چاہئے  جب کہ افتخار صاحب کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ لکھنے پر مزید توجہ دیں کیوں کہ اب ان کا کاروبار اتنا منظم ہو چکا ہے کہ ان کے پاس اس کام کے لیے کافی وقت ہو گا۔ ان کے لیے میرے پاس ایک مشورہ اور بھی ہے لیکن یہ مشورہ ایساہے ، اگر کبھی ان سے ملاقات ہو گئی تو میں انھیں ذاتی طور پر پیش کروں گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے