’ہتھیار ڈال دیں‘، عبداللہ اوجلان کا کردستان ورکرز پارٹی کو تحلیل کرنے کا اعلان

ترکیہ کے ساتھ عرصہ دراز تک برسرِپیکار تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے رہنما عبداللہ اوجلان نے ایک پیغام میں اپنے ماننے والوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا ہے۔رپورٹس کے مطابق عبداللہ اوجلان سنہ 1999 سے ترکیہ کی جیل میں زیرِحراست ہیں اور اُن کو قیدِتنہائی میں رکھا گیا ہے۔استنبول کی جیل کے سیل سے دیے گئے بیان میں انہوں نے کرد عسکریت پسند گروپ سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہنے کے ساتھ اس کی تحلیل کا بھی اعلان کیا جس کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
عبداللہ اوجلان کو ترکیہ کے امرالی جزیرے پر قید میں رکھا گیا ہے اور اُن کی عمر 75 برس ہے۔یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ترک حکام گزشتہ چار ماہ سے کردستان ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے رہنما سے مذاکرات کر رہے تھے۔کردستان ورکرز پارٹی کی ترک ریاست کے خلاف شورش کے دوران دو دہائیوں میں ہزاروں شہری مارے گئے۔عبداللہ اوجلان کا بیان کرد حامی سیاسی جماعت ڈی ای ایم سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے ایک وفد نے پڑھا جنہوں نے اُن سے جیل میں ملاقات کی تھی۔
بیان میں عبداللہ اوجلان نے کہا کہ ’میں ہتھیار ڈالنے کے لیے اعلان کرتا ہوں، اور میں تاریخی طور پر اس اعلان کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔جب سے ترکیہ نے عبداللہ اوجلان کو 1999 میں جیل میں ڈالا تھا، تب سے اس خونریزی کو ختم کرنے کے لیے مختلف کوششیں کی گئیں جو 1984 میں شروع ہوئی تھی اور اس میں 40 ہزار سے زیادہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ترک حکومت اور ’پی کے کے‘ میں بات چیت کا آخری دور 2015 میں تشدد کے درمیان ختم ہو گیا تھا۔اس کے بعد سے گزشتہ برس اکتوبر تک دونوں فریقوں میں کوئی رابطہ نہیں ہوا۔گزشتہ برس سیاسی جماعت ایم ایچ پی کے سخت گیر قوم پرست رہنما دیولت باہسیلی نے حیرت انگیز طور پر عبداللہ اوجلان کو امن معاہدے کی پیشکش کی کہ اگر وہ صدر رجب طیب اردغان کے اس اقدام کی حمایت کریں جس میں تشدد کو مسترد کرنے کا کہا گیا تھا۔
عبد اللہ اوجلان نے مزید کہا کہ کردوں کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جارہا تھا تو کردستان ورکرزپارٹی وجود میں آئی، چیلنجز کا سامنا کرنے کے ليے کردستان ورکرز پارٹی کا قیام ناگزیر تھا۔اپنے خط میں عبدالہ اوجلان نے کہا کہ تمام مسلح گروہوں کو ہتھیار ڈالنا پڑیں گے۔عرب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عبداللہ اوجلان کی یہ اپیل ترکی میں 40 سالہ تنازعے کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے اور خطے میں سیاسی و سلامتی کے لحاظ سے دور رس نتائج مرتب کر سکتی ہے۔واضح رہے کہ ترکی اور اس کے مغربی اتحادی پی کے کے کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق پی کے کے کی جانب سے 1984میں شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔