مدرسہ حقانیہ "افغان طالبان اور خود کش دھماکہ

آج نماز جمعہ کے بعد جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خود کش دھماکہ ہوا جس میں مدرسہ کے سربراہ اور جمیعت علما السلام (س) کے مرکزی راہنما مولانا حامد الحق حقانی سمیت چھ افراد مارے گئےـ نوشہرہ کے علاقہ اکوڑہ ختک میں قائم مدرسہ حقانیہ افغانستان میں روس کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے۔ مغربی میڈیا میں اس مدرسے کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق، جنہیں نومبر 2018 میں اسلام آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا، کو بعض اوقات ’طالبان کے باپ‘ کے نام سے بھی پکارا گیا
مدرسہ حقانیہ کب بنا تھا؟
۔اس مدرسے کی تاریخ کے حوالے سے مدرسے کے پروفیسر مولانا عرفان الحق نے ہمارے نمائندہ کو بتایا کہ مدرسے کی بنیاد قیام پاکستان کے بعد 23 ستمبر1947 کو شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے رکھی، جو تقسیم ہند سے پہلے دارالعلوم دیوبند میں استاد تھے۔
مولانا عرفان الحق نے بتایا کہ ’تقسیم کے بعد جب مسلم ہندو فسادات شروع ہوئے تو مدرسے کے بانی مولانا عبد الحق پاکستان میں تھے۔ میرے پردادا اور عبدالحق کے والد مولانا معروف گل نے اپنے بیٹے کو خوف کی وجہ سے واپس جانے نہیں دیا کیونکہ حالات خراب تھے۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں میرے والد کے شاگرد نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک آگئے جہاں پر آج کل یہ مدرسہ قائم ہے اور یہاں پر پڑھائی شروع کی۔ میرے والد نے اپنے شاگروں کو بتایا کہ وہ تب تک ان کو پڑھائیں گے جب تک ہندوستان میں حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔انہوں نے بتایا: ’آج کا یہ مدرسہ عارضی طور پر ان شاگردوں کے لیے شروع کیا گیا تھا، جہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا اور تین سال بعد اس کی پہلی دستار بندی ہوئی جس میں اسناد دی گئیں۔مولانا عرفان الحق نے بتایا کہ ’اس مدرسے کے پہلے سال فائنل ایئر میں آٹھ طلبہ تھے اور آج کل یہاں ڈیڑھ ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
کیا مدرسے میں افغان طالبان کو تربیت دی جاتی تھی؟
اس سوال کے جواب میں مولانا عرفان الحق نے بتایا کہ چونکہ یہ مدرسہ پاک افغان طورخم بارڈر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے تو افغانستان اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کے درمیان رابطہ زیادہ اور پرانا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے طلبہ یہاں پڑھنے آتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ’تقسیم ہند سے پہلے بھی اور بعد میں بھی افغان طلبہ اسی مدرسے میں پڑھتے رہے اور یہاں سے ہزاروں فارغ التحصیل علما نے جاکر افغانستان میں مدرسے قائم کیے، یہی وجہ ہے کہ اس مدرسے کا افغانستان میں ایک بڑا اثر و رسوخ ہے اور یہ اپنا ایک نام رکھتا ہے۔‘
مولانا عرفان الحق نے طالبان کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کا نام لیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اسی مدرسے سے پڑھا اور روس کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ یہاں تک کہ افغان طالبان کی سپریم کونسل کے 60 فیصد ارکان مدرسہ حقانیہ سے فارغ التحصیل تھے۔افغان طالبان کو تربیت دینے کے حوالے سے مولانا عرفان الحق نے بتایا کہ مدرسے میں کسی قسم کا ٹریننگ سینٹر قائم نہیں تھا، یہاں صرف درس و تدریس ہوتی تھی اور افغان طلبہ بھی یہاں آکر پڑھتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ یہ مدرسہ ہمیشہ مغربی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے، ان کے نمائندے کئی مرتبہ یہاں آکر رپورٹ بنا چکے ہیں، جنہیں مدرسہ دیکھنے اور اس پر تحقیقاتی رپورٹ بنانے کی کھل کر آزادی دی گئی تھی لیکن کسی قسم کا ٹریننگ سینٹر انہیں نظر نہیں آیا۔
افغان جہاد میں مدرسہ کا کردار
جامعہ حقانیہ کے ترجمان کے مطابق مولانا عبد الحق نے مدرسہ حقانیہ میں پڑھنے والے افغان شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک سے روس کو نکال دیں تاکہ ان کی تہذیب و تمدن کو بچایا جا سکے کیونکہ افغان قوم نے کبھی بھی کسی کا قبضہ قبول نہیں کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’ہماری یہ پالیسی بھی تھی کہ وہاں افغان طالبان اپنی سیاست کریں اور کسی کو قبضہ نہ کرنے دیا جائے۔مولانا عبد الحق سے جب فتویٰ لیا گیا تو انہوں نے کہاں کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ اسلامی ملک ہے اور اگر روس جارحیت سے وہاں داخل ہوا تو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہماری پارلیمنٹ اور سارے سیاستدانوں نے افغان طالبان کی حمایت کا اعلان کیا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں روس پاکستان کے گرم پانیوں تک نہ پہنچ جائے اور لوگوں کو نقصان نہ پہنچائے۔‘انھوں نے بتایا: ’مدرسہ حقانیہ نے افغان طالبان کو ایک روحانی اور ایمانی سپورٹ دی اور جو پالیسیاں وہ لانا چاہتے تھے ان کی حمایت کی لیکن کسی غیر ملک کی جانب سے ان پر قبضہ کرنے کی مخالفت کی۔مولانا جلال الدین حقانی، مولانا یونس خالص اور دیگر بڑے بڑے نام اس مدرسے کے شاگرد تھے، جنہوں نے اپنا کام چھوڑا، ’جہاد‘ پر توجہ دی اور روس کو بھگا دیا۔
کیا افغان طلبہ اب بھی یہاں پڑھتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں تو مدرسہ کے ترجمان نے بتایا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر طلبہ کلاسز لینے کے بعد دوبارہ قریبی علاقوں میں واقع اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔رپورٹر کے اصرار پر کہا گیا کہ کہ ’بس اس کو چھوڑیے،‘ تاہم مدرسے کے منتظمین کے اس دعوے کہ اس وقت افغان طلبہ کلاسز میں موجود نہیں ہیں، کی اس وقت نفی ہوئی جب مدرسے کے احاطے میں جا کر وہاں کچھ طلبہ سے ملاقات ہوئی، تو ایک طالب علم نے بتایا کہ بہت سے افغان طلبہ ابھی بھی کلاسز میں موجود ہیں۔
طلبہ کے ایک گروہ میں ایک افغان طالب علم بھی کھڑا تھا، جس نے مجھے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کے صوبے لغمان سے ہے اور وہ مدرسے میں ہی رہائش پذیر ہیں، تاہم انہوں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کردیا کہ وہ اردو نہیں بول سکتے۔ میں نے جب پشتو میں بات کرنے پر اصرار کیا تو انہوں نے تب بھی بات کرنے سے انکار کردیا۔اس حوالے سے مدرسے کے ایک منتظم نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان سے آنے والے زیادہ تر طلبہ کے پاس افغان کارڈ، جو نادرا کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے، موجود نہیں ہوتا اس لیے ان کا یہاں پڑھنا غیر قانونی ہے، یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نہیں چاہتی کہ مدرسے میں افغان طلبہ کے حوالے سے بات کی جائے۔
مولانا حامد الحق نشانہ کیوں بنے ؟
جامعہ حقانیہ میں ہونیوالا یہ خود کش دھماکہ یوں تو پاکستان میں ہونیوالے سینکڑوں خود کش دھماکوں کی ایک کڑی ہے لیکن جامعہ حقانیہ اور مولانا حامد الحق حقانی اور انکے والد مولانا سمیع الحق حقانی کی طالبان نوازی کو دیکھتے ہوئے یہ دھماکہ بہت سی آرا کو جنم دے چکا ہے ـ آخر کیا وجوہات بنیں جو طالبان یا ان سے منسلک کسی گروپ نے مولانا حامد الحق کو نشانہ بنایا
اس سلسے میں ایک اہم رائے یہ بھی ہے کہ مولانا حامد الحق نے کچھ دنوں قبل افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے طالبان پر تنقید کی تھی جس کے بعد انہیں کافی دھمکیاں بھی موصول ہوئی تھیں مزید سننے میں آرہا ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے افغانستان جانیوالے وفد میں بھی مولانا حامد الحق کا نام شامل تھا-