پیکا: کالا قانون یا سفید قانون؟
صدر آصف علی زرداری نے متنازع الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کر دی، جس کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 اب قانون بن چکا ہے۔پیکا ایکٹ 23 جنوری کو قومی اسمبلی جب کہ 28 جنوری کو سینیٹ سے ایسے منظور ہوا تھا، جیسے منظور نظروں کے بل منظور ہوا کرتے ہیں۔اس بل کے خلاف ملک بھر کی صحافی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اپوزیشن سراپا احتجاج ہیں لیکن بل جہاں سے آیا ہے وہاں تک احتجاج یا تو پہنچ نہیں پاتا یا اگر پہنچتا بھی ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔صحافی برادری حکومت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کو بجا طور پر سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں پہلی مرتبہ اس طرح کی قانون سازی کی گئی تو اس کے خلاف صحافیوں نے قومی اسمبلی کے باہر شامیانے لگا کر احتجاج شروع کیا۔
اس احتجاجی مظاہرے میں پیکا ایکٹ پر دستخط کرنے والے صدر مملکت آصف علی زرداری کے صاحب زادے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے دو سابقہ وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت سب سے پہلے پہنچے تھے۔اس کے بعد اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور آج کے وزیراعظم جناب شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن نے صحافیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے دھواں دار تقاریر کیں۔صرف چند برس کے اندر اندر موسم نے ایسا پلٹا کھایا کہ آج مسلم لیگ ن کی مرکز اور پنجاب جبکہ پیپلز پارٹی کی سندھ، بلوچستان اور سینیٹ میں حکومت ہے اور اس بل کو پیش کرنے میں دونوں برابر کے شریک بھی ہیں۔میرا اعتراض صرف یہ ہے کہ اس پر کم از کم صحافتی تنظیموں اور باقی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاتا تو شاید کوئی راستہ نکل ہی آتا، مگر جس پھرتی سے یہ سب کچھ ہوا، اس سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ بل منظور نہیں ہوا بلکہ کوئی واردات ڈالی گئی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فیک نیوز اور صحافت کے نام پر کردار کشی اور صحافی نما کارکنان کا قلع قمع ہونا چاہیے، ان کا رستہ روکنا چاہیے اور قانون کے مطابق انہیں قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے، لیکن اس سب کی آڑ میں سیاسی اور صحافتی انتقام کے لیے رستے کھولنا انصاف نہیں۔پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اس طرح کی قانون سازی کے بعد اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔پی ٹی آئی کے دور میں بھی صحافی زیر عتاب رہے اور موجودہ دور میں بھی صحافیوں پر زندگی تنگ ہے۔ اس پر ہر طبقہ فکر متفق ہے کہ جھوٹی خبروں کا سدباب ہونا چاہیے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی کردار کشی کرے۔ جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن قانون سازی میں شفافیت کا ہونا اور نظر آنا بہت اہم ہے۔صرف اسی معاملے میں نہیں بلکہ ہر طرح کی قانون سازی میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے مشورہ لیا جاتا ہے، کمیٹیوں میں بحث ہوتی ہے، دونوں ایوانوں میں اس پر بحث ہوتی ہے، حزبِ اختلاف کو بھی موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اس پر رائے دے، پھر کہیں جا کر قانون منظور ہوتا ہے۔
لیکن کسی سے پوچھے بغیر منٹوں کے اندر اندر قانون پاس کروا لینا کیا معنی رکھتا ہے؟ خاص طور پر ایسا قانون، جس کا اثر دور تک جائے گا اور جس پر معاشرے کے ایک حصے کو اعتراض ہو؟چند روز قبل وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ خان سے پیکا قانون پر طویل مباحثہ ہوا اور انہوں نے کوزے کو دریا میں بند کر دیا۔ ان کا کہنا تھا: ’جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہمیں یہ ’کالا قانون‘ لگ رہا تھا اور آج حکومت میں ہیں تو یہ ’سفید قانون‘ لگ رہا ہے۔ اسی طرح جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو اسے یہ سفید قانون لگتا تھا اور آج وہ اپوزیشن میں ہے تو انہیں یہ کالا قانون لگ رہا ہے۔ بس یہ چکر سفید اور کالے کا ہے۔‘رانا صاحب دبے الفاظ میں یہی بات کر گئے کہ قانون اور قانون سازی اپنی جگہ، سارا کھیل اقتدار اور اپوزیشن کا ہے۔ایک بات کا رانا ثنا اللہ نے ضرور اقرار کیا کہ اس قانون کے خلاف صحافیوں کا احتجاج 200 فیصد درست ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے پر صحافیوں سے مشاورت کرے۔رانا ثنا اللہ مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور مشیر ہیں، اس لیے امید ہے کہ حکومت ان کی بات کو سنجیدگی سے لے کر صحافیوں اور صحافی تنظیموں کو مشاورت کے لیے بلائے گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قانون تو نافذ ہو چکا ہے!