کیا غزّہ محض ایک پراپرٹی ہے؟

1db1beb0-d37f-11ef-a118-e59aa5b2fa98.jpg

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کہ غزہ پر بہت اچھی عمارتیں تعمیر ہوسکتی ہیں اور اس کے رہائشیوں کو مصر اور اردن منتقل کیا جائے، ایک قبضہ گیر پراپرٹی ڈیلر کے عمل کی مانند ہے جو اس سرزمین کو فلسطینیوں کی ماں سمجھنے کی بجائے محض ایک جائیداد سمجھتا ہے۔اس بیان پر متعلقہ فریقوں کی جانب سے بھی شدید مخالفت کی جا رہی ہے، خاص طور پر امریکہ کے روایتی حلیفوں کی جانب سے۔ اردن اور مصر کے حکمران اگرچہ ٹرمپ کی تابعداری کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہو سکتے ہیں، مگر عوام کے شدید ردعمل کا خوف انہیں اس تجویز کی مخالفت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔اردن نے ٹرمپ کی تجویز کو اپنے اقتصادی اور سیکیورٹی خدشات کی بنا پر مسترد کر دیا ہے، جبکہ مصر نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا اور خبردار کیا کہ ایسی منتقلی سے ممکنہ طور پر سلامتی کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

دونوں ممالک کو یہ خوف ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول کرنے سے ان کی سرحدوں میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ کسی نے بھی اتنی جرات نہیں کی کہ ٹرمپ سے پوچھے کہ جب اسرائیل تباہی پھیلاتا ہے تو اس کا بوجھ دوسرے ممالک کیوں برداشت کریں۔ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں سفیر کے طور پر جس ریپبلکن رہنما ایلیس سٹیفنِک کو نامزد کیا ہے، اس نے سینیٹ میں اپنی تقرری کی توثیق کے لیے یہ بیان دیا کہ اسرائیل کو اپنے آسمانی صحیفوں کے مطابق مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطین کو ضم کرنے کا حق حاصل ہے۔
مس سٹیفنِک کا یہ بیان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ اور ٹرمپ کا بھی یہ بیان ان کی انتظامیہ کی پالیسیوں کا تسلسل دکھاتا ہے جو خطے کی تشکیلِ نو کو ترجیح دیتی ہیں، اور اس میں اکثر قائم شدہ اصولوں اور متاثرہ آبادیوں کے حقوق کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔

یہ بیان امریکہ کے یکطرفہ رویے کو واضح کرتا ہے جو پیچیدہ جغرافیائی سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے اسرائیل کی تباہ کن بمباری کو اپنے دفاع کا حق کہتا ہے، جب کہ قابض فوج کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 1 (2) اور جنرل اسمبلی کی قرارداد 33/24 ہر مقبوضہ قوم کے حقِ مزاحمت کو جائز قرار دیتی ہیں اور حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کو تسلیم کرتی ہے، مگر امریکہ ان قراردادوں کی مخالفت کرتے ہوئے مزاحمت کو دہشت گردی کہتا ہے۔اس دوران فلسطینی رہنماؤں، خاص طور پر حماس اور اسلامی جہاد نے بھی ٹرمپ کے اس طرح کے منصوبوں کی مذمت کی ہے جو نقل مکانی پر مبنی ہوں، اور کہا ہے کہ ایسی تجاویز ان کی شناخت اور دو ریاستی حل کے امکانات کے لیے خطرہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے