ٹرمپ چین کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟

ٹرمپ-چینی-صدر.jpg

ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ دنیا کے سب سے اہم تعلقات امریکہ اور چین کے درمیان ہیں۔ یہ تعلقات دو طاقتور افراد کے ہاتھوں میں ہیں، جن کی عمریں 70 کی دہائی میں ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ان کے اقدامات آئندہ چار سال کے لیے حالات کا تعین کریں گے، چاہے وہ ٹک ٹاک ہو، تجارت، محصولات، ٹیکنالوجی، جنگ یا امن۔شی مارکسسٹ ہیں جو پارٹی نظم و ضبط میں تربیت یافتہ ہیں۔ کسی بھی قسم کی چالاکی سے بے نیاز، حد سے زیادہ محتاط اور بیجنگ کی سرخ دیواروں کے پیچھے ہونے والے فیصلوں پر ثابت قدم ہیں۔ وہ موقعے پر مذاکرات کرنے والے شخص نہیں۔ٹرمپ، خیر ٹرمپ ہیں۔اس ہفتے امریکہ کے 47 ویں صدر نے کہا کہ ’مجھے صدر شی بہت پسند ہیں۔ مجھے ہمیشہ ان سے لگاؤ رہا ہے۔ ہمارا ہمیشہ ایک بہت اچھا تعلق رہا ہے۔ کووڈ 19 کے ووہان سے آغاز کے باعث یہ تعلق یقیناً کشیدہ ہوا۔ اس نے تعلقات پر دباؤ ڈالا۔تاہم صدر نے ایسی باتیں بھی کیں جو شاید ان کی کابینہ کے کچھ چین مخالف افراد کو پسند نہیں آئیں یعنی ’میں کہوں گا کہ ہمارا ہمیشہ زبردست تعلق رہا اور ہم چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم کرنے اور بہتر کام کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔‘

چینی کمیونسٹ رہنما شی جن پنگ کی نیویارک کے سابق پراپرٹی ڈیلر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ذاتی رائے دنیا کے سامنے کبھی ظاہر نہیں کی گئی۔دونوں میں کچھ چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں کو بچپن میں مراعات حاصل تھیں۔ شی جن پنگ طاقت کے ماحول میں پیدا ہوئے اور ٹرمپ دولت کے۔ دونوں غالب شخصیت رکھنے والے والد کے بیٹے تھے اور حریف بہن بھائیوں کے درمیان بڑے ہوئے، لیکن بچپن کی یہ مماثلتیں یہیں ختم ہو جاتی ہیں۔شی جن پنگ کے والد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ خاندان رسوا ہوا اور خود شی کو نوجوانی میں مارا پیٹا گیا، انہیں تشدد سہنا پڑا، قید میں ڈالا گیا اور ایک دور دراز گاؤں جلا وطن کر دیا گیا۔ وہاں انہوں نے کھیتوں میں مشقت کی، غار میں رہائش اختیار کی اور کسانوں کی دی ہوئی خوراک پر زندہ رہے۔ادھر نوجوان ٹرمپ مین ہٹن کی پارٹیوں میں مصروف تھے جب کہ ان کے چینی حریف بدحالی سے نکل کر طاقت کی سیڑھی پر چڑھنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ کالج میں داخلہ حاصل کرنا، چین کے دفاعی سربراہ کے ساتھ کام کرنا اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے صوبوں میں سالہا سال سخت محنت کرنا۔

چینی رہنماؤں کو ’تلخ بات پی جانے‘ کی تربیت دی جاتی ہے، جیسا کہ خود شی نے کہا۔ انہیں مغربی سیاست دانوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، جو زندگی میں آسانی سے آگے بڑھتے ہیں۔جب براک اوباما پہلی بار بیجنگ گئے تو پولٹ بیورو (کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی بنانے والی کمیٹی) کے لیے یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ الینوئے کے ایک بار منتخب ہونے والے ایسے سینیٹر کو سنجیدہ لیا جائے، جس نے پہلے کبھی کسی اعلیٰ عہدے پر کام نہ کیا ہو۔یہ ایک غلطی تھی۔ امریکہ کی پالیسی کو چین کے خلاف سخت رخ پر ڈالنے والے ٹرمپ نہیں بلکہ اوباما تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اوباما نے اس پر شور نہیں مچایا۔شی جن پنگ شاید جو بائیڈن کے ساتھ بہتر اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم کر سکتے تھے۔ دونوں 2011 سے 2023 کے درمیان کم از کم آٹھ بار ملے، لیکن وہ بائیڈن ہی تھے جو واشنگٹن واپس گئے تو ان کے دل میں گہری تشویش تھی کیوں کہ شی نے انہیں بتایا کہ چینی تاریخ سے انہوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ’کبھی رعایت نہ کرنا۔‘

صورت حال، سودے بازی کے فن کے ماہر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کچھ زیادہ امید افزا نہیں تھی، جب ان دونوں نے پہلی ٹرمپ صدارت کے دوران ملاقات کی۔ ٹرمپ نے اپنی پوری چالاکی اور مار اے لاگو میں بھرپور میزبانی کا مظاہرہ کیا، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ایک ذریعے نے مجھے بتایا کہ جب دونوں کاک ٹیل کے لیے بیٹھے، ٹرمپ شراب نہیں پیتے لیکن شی اسے پسند کرتے ہیں، تو کوئی بات برف نہ پگھلا سکی۔ شی کے ساتھ ان کے امریکی امور کے ماہر، وانگ ہوننگ بھی تھے، جو نظریہ پسند ہیں اور انہوں نے شی کو خبردار کیا کہ ایسی غیر ملکی چالاکیوں سے محتاط رہیں۔جیسا کہ اندازہ تھا، جب ٹرمپ نے بیجنگ کا جوابی دورہ کیا تو ’ممنوعہ شہر‘ میں خواتین اول کی تصویر ایسے نظر آتی تھی جیسے مومی مجسمے ہوں اور میلانیا ٹرمپ کے چہرے سے لگتا تھا کہ جیسے وہ کہیں اور ہونے کی شدت سے خواہش کر رہی ہوں۔اس ملاقات کا سنجیدہ سبق، اس بار یہ ہے کہ شی جن پنگ ذاتی معاملات میں شامل نہیں ہوتے اور نہ ہی دباؤ میں آتے ہیں، لیکن وہ طاقت کا احترام کرتے ہیں اور اپنے اہداف میں ردوبدل کر لیتے ہیں۔

ٹک ٹاک کے حوالے سے ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ معاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کی مالک کمپنی کے ارب پتی سرمایہ کار، اٹلانٹک کیپیٹل کے بل فورڈ نے ورلڈ اکنامک فورم میں چینی بزنس میگزین کائی سین کو بتایا کہ ’ایسا ہو گا۔‘محصولات کے بارے میں، ٹرمپ نے کہا کہ وہ چین پر بہت زیادہ محصولات عائد کرنے کو ’ترجیح نہیں دیں گے۔‘ چینی ذرائع ابلاغ کے مالیاتی تجزیہ کاروں نے اس بیان کو ایک ابتدائی چال کے طور پر لیا۔جنگ اور امن کے معاملات زیادہ مشکل ہوں گے، تاہم امریکی صدر نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ہونے والے کچھ انتہائی خفیہ سٹرٹیجک مذاکرات کی ایک جھلک دکھائی۔انہوں نے کہا: ’ہم جوہری ہتھیاروں کا خاتمے دیکھنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر پوتن کے ساتھ، ایک الیکشن کے نتیجے سے پہلے، جو کہ سچ کہوں تو مضحکہ خیز تھا، ہم دونوں ممالک کے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے پر بات کر رہے تھے اور چین بھی اس میں شامل ہو جاتا۔‘

کسے معلوم تھا؟ امریکہ کی ٹھوس رپورٹس کے ڈھیر نے خبردار کیا کہ شی جن پنگ چین کے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے اس کی تصدیق کی لیکن ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے بڑی سودے بازی کی امید ظاہر کی، سب کے لیے نوبیل انعام۔ٹرمپ اپنی بے باکی کے لیے مشہور ہو سکتے ہیں، لیکن بعض اوقات ان کی گفتگو اتنی بے ساختہ نہیں ہوتی جتنی ان کے حامی سمجھتے ہیں۔ بیجنگ اور ماسکو میں ان کے ہر لفظ کو توجہ سے سنا جا رہا ہے۔

کالم نگار:- مائیکل شیرڈن ( انگلش سے ترجمہ شدہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے