24 نومبر احتجاج: کیا پی ٹی آئی صرف عمران خان کی رہائی پر مان جائے گی؟
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پی ٹی آئی کے احتجاج سے پہلے حکومت سے مذاکرات کرنے کا چرچا بھی ہو رہا ہے۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کی بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں دو روز سے ملاقاتیں جاری ہیں۔بدھ کو ہونے والی ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ "بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر کل تک مذاکرات آگے بڑھے تو احتجاج نہیں جشن ہو گا”
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے 26ویں ترمیم کی واپسی، گرفتار کارکنان کی رہائی اور انتخابی مینڈیٹ کی واپسی کے مطالبات کیے گئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام مطالبات مانے جائیں گے یا پھر اگر حکومت صرف عمران خان کو رہا کرنے پر آمادہ ہو جائے تب بھی کوئی بات بن سکتی ہے۔اس حوالے سے بصیر میڈیا نے پاکستان تحریک انصاف کے متعدد سینیئر رہنماؤں سے رابطہ کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا، البتہ بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری نے بصیر میڈیا سے بات کی۔پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما زلفی علی بخاری نے بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: "مذاکرات کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی مانے جانے والے حل پر پہنچیں اور اس میں یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ ہماری سو فی صد چیزیں مانی جائیں یا سو فیصد دوسرے کی باتیں مان لی جائیں۔”ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عمران خان رہا ہو جاتے ہیں تو ہمارے باقی کے دو مطالبات خود ہی پورے ہو جائیں گے۔ لیکن یہ بات کہ ہم صرف عمران خان کی رہائی پر مان جائیں گے اس کا جواب ہاں یا نہ میں نہیں دیا جاسکتا کیونکہ مذاکرات میں کچھ ہم مانگتے ہیں کچھ وہ مانگتے ہیں۔”
انہوں نے کہا: ’ہمارے تینوں مطالبات میں سے سب اہم چیز عمران خان کی رہائی ہے کیونکہ ان کی رہائی کے بعد ہی باقی چیزیں آسانی سے ہو سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بیٹھ کر دیکھنا ہو گا کہ مذاکرات کس طرف جاتے ہیں اور اگر مذکرات نہ ہوئے تو ہمارا مقصد ہے کہ ایک پرامن احتجاج ہو وہ چاہے ایک دن کا ہو یا دس دن کا، ہو گا پر امن۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت یا "کوئی اور” اس میں مزید رکاوٹیں نہ ڈالیں کہ مزید اپنے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں جو کہ ہمیشہ ہوتی ہیں اور اس میں نقصان اپنوں کا ہی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کے حالات دیکھیں اور حالیہ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات دیکھیں تو ا س میں نظر یہی آتا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک کی حفاظت کرنے سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں۔سیاست پر سیاست دانوں کو توجہ چاہیے لہٰذا جب آپ ایسی حکومت چلاتے ہیں تو سب اداروں میں ناکامی آتی ہے اس لیے دو سالوں میں دہشت گردی بھی بڑھ گئی ہے لیکن ہم اپنی فوج کے ساتھ اس دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں، ہم ان کو یہی کہتے ہیں کہ فورسز اپنے کام کی طرف توجہ دیں عدلیہ کو اپنا اور سیاست دانوں کو اپنا کام کر نا چاہیے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون کے اندر رہنا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے جلسے اور مذاکرات کے حوالے سے سینییئر اینکر اور تجزیہ کار منیب فاروق کا کہنا ہے: ’جو صورت حال ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ کوئی پالیسی شفٹ نہیں ہے لیکن منطق کی بات کریں تو عمران خان نے جیل سے باہر تو آنا ہے، ابھی نہیں تو اگلے چار، چھ یا آٹھ مہینے کے بعد ان کے باہر آنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تو بنے گا۔لیکن یہ کہنا کہ عمران خان رہا ہو جائیں اور باقی معاملات ویسے ہی رہیں تو عمران خان باہر آ کر چپ تو بیٹھیں گے نہیں، وہ اپنی ایک سیاسی تحریک چلائیں گے، اس حکومت کو غیرمستحکم کریں گے اور اس کے علاوہ بہت کچھ کریں گے تو میرے خیال میں وہ اسی صورت میں باہر آ سکتے ہیں اگر اسٹیبلشمنٹ ان پر کچھ سختی رکھے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں جو کہ عمران خان کی فطرت کے خلاف ہے۔ یہاں وہ باؤنس بیک کر سکتے ہیں کہ ان کے پاس عوام کا تعاون ہے اور وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر میں سڑکوں پر آتا ہوں تو میں اس حکومت اور نظام کے لیے کافی مشکلات کھڑی کر دوں گا۔
منیب فاروق کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت تو کوئی ایسی صورت حال کا متحمل ہو بھی نہیں سکتا لیکن سیاست میں کسی بھی سٹیج پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اگر میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کی بات کروں تو وہ عمران خان کی طرف فی الحال تبدیل نہیں ہو گی کیونکہ مسائل اپنی جگہ کھڑے ہیں جنہیں میں فوری طور پر حل ہوتا نہیں دیکھتا البتہ منطق یہ کہتی ہے کہ عمران خان کو اب باہر آ جانا چاہیے کیونکہ انہیں جیل میں ڈیڑھ برس ہو چکا ہے لیکن اگر میں زمینی حقائق کو دیکھوں تو منطق کی نفی نظر آتی ہے کہ ان کا باہر آنا ابھی نہیں دکھائی دیتا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے کیسسز کو دیکھ لیں تو اگر آپ توشہ خانہ ٹو کیس چھوڑ بھی دیں تو 190 ملین پاؤنڈ کا کیس بند ہونے کو ہے اور اس میں عمران خان کو سزا ہو جانی ہے اس سب کے درمیان عمران خان نے کہا کہ میں احتجاج کروا رہا ہوں اس میں اگر حکومت کہے کہ ہم عمران خان کو چھوڑ رہے ہیں تو یہ منطق کی نفی کرتا ہے۔میں انہیں جیل سے فوری باہر آتا نہیں دیکھ رہا ہاں کچھ مہینوں بعد شاید ایسا ہو سکے۔ رہائی کے بعد ان کا واپس اقتدار کے میدان میں آنا بھی اگلے دو تین سال تک ممکن نہیں ہو گا۔
سینئیر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے: ’پی ٹی آئی کے لیےکال کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ 26 ویں آئینی ترمیم اور سروسز چیف کی مدت میں اضافے کے بعد سے ان پر جھنجھلاہٹ طاری ہے اس سے پی ٹی آئی کمزور اور حکومت کے مضبوط بننے کا تاثر ابھرا ہے اور پارٹی کے اندر انتشار کا بھی۔پی ٹی آئی نے اس کیفیت سے نکلنے کے لیے امریکی صدارتی انتخابات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور تاثر بھی یہی ہے کہ وہاں ان کی پارٹی نے ٹرمپ کے حق میں مہم چلائی اور ٹرمپ کے جیتنے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور یہ اسے یہاں کیش کروانا چاہتے ہیں۔کیا یہ ممکن ہو پائے گا؟ فی الحال تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ حکومت کے خلاف ماحول بنانا ضروری ہے اور یہ کال اسی ضمن میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کیا یہ نتیجہ خیز بن پائے گا؟ ایسا لگتا نہیں اسی لیے یہ احتجاج کی بات بھی کر رہے ہیں اور ڈائیلاگ کی بھی۔ پشاور کی سطح پر ان کی بات بھی کسی سے چل رہی ہے لیکن اس کی نتیجہ خیزی حکومت سے مشروط ہو گی اس لیے کہ ابھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور بڑا چیلنج معیشت اور دہشت گردی ہے۔ اس لیے مذاکرات کے لیے لچک تو دکھائی جا رہی ہے مگر اس پر پیش رفت ہو گی یا نہیں اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔سلمان غنی کا کہنا تھا: ’جہاں تک ان کے احتجاج کا سوال ہے، پختونخوا کی سطح تک تو کامیاب ہو سکتا ہے مگر اسلام اباد میں کوئی یلغار نہیں کرنے دے گا۔
پنجاب البتہ چارج ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک تو کارکنوں میں مایوسی ہے تو دوسرا انتظامی مشینری بڑی متحرک ہے لہذا ادھر تو حکومت مطمئن ہے۔ جہاں تک ان کے مطالبات کا سوال ہے تو سیاسی مذاکرات میں مطالبات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مطالبات کرنے والوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ ممکن نہیں اور جن سے کیے جاتے ہیں وہ بھی اس پر توجہ نہیں دیتے۔کیا 26ویں آئینی ترمیم ختم ہو گی کیا حکومت پسپائی اختیار کر لے گی؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا ممکن نہیں، البتہ ایسی اطلاعات ہیں کہ عمران کی رہائی ہو سکتی ہے مگر ٹرمپ کے مسند اقتدار پر پہنچنے سے پہلے۔ان کا کہنا تھا: ’اس کے پیچھے عوامل اور ہیں مگر راستہ عدالت ہی نکالے گی اور جو چیزیں طے ہوں گی اس پر پی ٹی آئی کو آنا ہو گا۔ہو سکتا ہے کہ کہ آنے والے وقت میں مڈ ٹرم پر بھی بات ہو مگر اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایسی کوئی شرط نہیں مانے گی کیونکہ بہت سے ملکوں سے غیرملکی سرمایہ کاری پر بات چیت چل رہی ہے اور اس وقت اسٹیبلشمنٹ کچھ ایسا نہیں چاہے گی کہ کوئی یہاں اپ سیٹ ہو البتہ آنے والے حالات میں بریک تھرو خارج از امکان نہیں۔سلمان غنی نے کہا: ’ہو سکتا ہے کہ نئی امریکی حکومت کو پاکستان کی ضرورت پڑ جائے تو پھر کیا ہو گا۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی کوشش بند گلی سے نکلنے کی ہے اور اس کے لیے ہاتھ پاؤں مارے جارہے ہیں مگر اسے دباؤ سے کچھ نہیں ملے گا۔ سیاسی طرز عمل اختیار کر کے ہی کچھ حاصل کر پائیں گے جو خارج از امکان نہیں، اس حوالے سے آئندہ چند روز اہم ہیں۔جہاں تک لانگ مارچ کی نتیجہ خیزی کا سوال ہے، تو اس حوالے سے اثرات اچھے نہیں، ہو سکتا ہے کہ اس کی نوبت نہ آئے اور کسی غیر اعلانیہ یقین دہانی پر اسے موخر کر دیا جائے اس میں گنڈا پور کی عمران خان سے آخری ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
کالم نگار :- فاطمہ علی