میدان جہاد اور غزہ کی قسمت کا فیصل

images-6.jpeg

غزہ میں جنگ شروع ہوئے پانچ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے جنگی جرائم کے ارتکاب، مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور تمام تر بین الاقوامی قوانین کی پامالی کی حد کر دی ہے۔ دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک پوری طرح غاصب صیہونی حکمرانوں کی حمایت اور پشت پناہی میں مصروف ہیں اور فریب کاری کے ذریعے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کیلئے جرائم پیشہ صیہونی حکمرانوں کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ ایسے میں عالمی سطح پر اسرائیلی کی جعلی رژیم کے خلاف نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ عالمی اداروں سے بھی دنیا والوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور ان کی نظر میں موجودہ ورلڈ آرڈر اور بین الاقوامی اداروں کی افادیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔

امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک اگرچہ اپنے نعروں اور عمل کے درمیان تضاد کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی رائے عامہ کو فریب دینے کیلئے انسان دوستی کا تاثر پیش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بظاہر خود کو انسانی حقوق کا حامی پیش کرنے کے باوجود مغربی طاقتیں اپنی شیطانی ذات سے چھٹکارا نہیں پا سکتیں۔ امریکہ کی جانب سے اہل غزہ کو ہوائی جہازوں یا عارضی بندرگاہ کے ذریعے انسانی امداد فراہم کرنے کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام اقدامات کا واحد مقصد عارضی جنگ بندی کے قیام میں رکاوٹیں ڈال کر صیہونی حکمرانوں کو مزید جنگی جرائم کے ارتکاب کا موقع فراہم کرنا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے تھنک ٹینکس اب بھی اپنی استعماری اور سامراجی روح پر زور دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ ہی غزہ اور نہ ہی یوکرین میں اپنی حتمی شکست سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گے۔

امریکہ سمیت مغربی ممالک مختلف قسم کے سیاسی اور اقتصادی مسائل کا شکار ہیں جبکہ روز بروز عالمی رائے عامہ بھی ان کے خلاف ہوتی جا رہی ہے لیکن وہ بدستور اپنی نجات کا راستہ جنگ افروزی میں تلاش کر رہے ہیں۔ غزہ میں فلسطینی عوام اور اسلامی مزاحمتی گروہوں نے "تلوار پر خون کی فتح” کا عالمی معجزہ ظاہر کر دکھایا ہے جبکہ مغربی طاقتوں کا عالمی سطح پر میڈیا، فوجی، اقتصادی اور سیاسی مافیا بھی مغرب اور صیہونزم کا حقیقی چہرہ منظرعام پر آنے سے حاصل ہونے والی رسوائی کو نہیں روک پایا۔ صیہونزم اور مغرب کو شدید دھچکہ پہنچا ہے اور وہ حالت احتضار کے قریب ہو چکے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف معروف مغربی ذرائع ابلاغ جیسے آئی این ایس ایس، بلوم برگ اور فارن افیئرز بھی کر چکے ہیں۔

صیہونی اور امریکی ذرائع غزہ کے جنوب میں واقع شہر رفح پر اسرائیل کے زمینی حملے کو غزہ میں اسلامی مزاحمت کے خاتمے کے طور پر بیان کر رہے ہیں لیکن جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران، آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اس بات پر زور دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کی 90 فیصد طاقت اب بھی باقی ہے۔ دوسری طرف یوکرین میں بھی اگر مغربی ممالک اور نیٹو کی جانب سے مسلسل فوجی سازوسامان اور اسلحہ کی سپلائی نہ ہو اور ان کے فوجی مشیر میدان جنگ میں حاضر نہ ہوں تو چند دنوں میں ہی جنگ روس کی حتمی فتح کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔ یوکرین جنگ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت یعنی جرمنی میں ہزاروں کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں اور اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولاً وہ کون سی طاقت ہے جو علاقائی اور عالمی سطح پر مغرب اور صیہونزم کی بربریت اور وحشیانہ پن کو ختم کرنے میں موثر ہے؟ اور دوماً آیا مغرب اور صیہونزم، ماضی کی طرح درپیش اقتصادی بحران اور اپنی بقا کو درپیش خطرات پر قابو پانا ھے۔

کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی طرح عارضی طور پر جنگ بندی قائم ہو بھی جائے تب بھی مغرب اور صیہونزم کا وحشیانہ پن اور جنگ افروزی اسے زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہنے دے گی۔ خود مغربی دنیا اور غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی حلقوں اور تحقیقاتی مراکز اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا تیزی سے اقتصادی اور سیاسی زوال کی جانب گامزن ہیں۔

مغربی دنیا میں افراط زر اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ غاصب صیہونی رژیم اندرونی طور پر شدید سیاسی عدم استحکام اور انتشار کے گرداب میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ لیکن مغربی ذرائع ابلاغ دنیا والوں کو یہ حقیقت برعکس کر کے دکھاتے ہیں اور ایک چوہے کو شیر کر کے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا ایک ہی راہ حل ہے اور وہ علاقائی اور عالمی سطح پر اس شیطان صفت دیو کا گلا دبا دینا ہے۔ جیسے حزب اللہ لبنان نے رمضان مبارک کے پہلے دن غاصب صیہونی رژیم پر 100 میزائل برسائے اور انصاراللہ یمن نے عدن کے ساحل کے قریب امریکی جنگی کشتیوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ مغرب اور صیہونزم کے خلاف مزاحمت کی شدت میں تیزی لانے کا آغاز ہے۔ یہ ان ممالک کیلئے رول ماڈل ہے جنہوں نے سامراجی طاقتوں سے زخم کھائے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ عالمی سطح پر بھی ایسی ہی مزاحمت کا اظہار کریں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے