گوادر میں ایک مرکزی امدادی اور رابطہ کیمپ قائم کیا جائے گا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

ماہ-رنگ-بلوچ-گوادر-پریس-کانفرنس-768x439.jpg

گوادر۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے گوادر پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت گوادر میں سیلاب سے آنے والی تباہی ہمارے توقعات سے بہت زیادہ ہے اور یہ پورار ریجن اس سے شدید متاثر ہے۔ آج ہم اس پر یس کا نفرنس کے توسط سے گوادر میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات، سیلاب کے اسباب، لوگوں کی حالات زندگی، نام نہاد میگا پروجیکٹ اور ترقی کی حقیقت، ریاست کی غفلت اور عدم توجہی اور امدادی کاموں پر تفصیل سے نظر ڈالے گے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ٹیم گزشتہ پانچ دنوں سے گوادر میں موجود ہے اور سیلابی صور تحال و زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے گو اور اولڈ سٹی، پیشکان شھر، ڈگارو، پسّاو، جیونی شہر پلیری، پرائے توک ، سر بندر اور گرد ونواح کے علاقوں میں سروے کر رہی تھی۔ ہماری سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت گوادر اولڈ سٹی کے ساتھ جیونی، پشکان پلیری، سر بندر، کنٹانی، گنز، کلانچ اور ان کے مضافاتی علاقے سیلاب سے شدید متاثر ہے۔ ان تمام علاقوں میں سیلاب کے سبب معاشی نقصانات نے یہاں کے شہریوں کی کمر تور دی ہے اور زندگی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، گوادر اولڈ سٹی سے لیکر جیونی اور سر بندر تیک سینکڑوں گھر متاثر ہوئے ہیں جس میں گھروں کے چت اور دیوار گر چکے ہیں، جبکہ بلخصوص پلیری اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں تقریباً ہر گھر متاثر ہے۔ جیونی، پشکان، پلیری اور مضافاتی علاقوں میں ہزاروں لوگ بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اس پورے ریجن کی ذرائع معاش ماہی گیری ہے۔ اس پورے ریجن بلخصوص جیونی اور سر بندر میں ماہی گیر کمیونٹی کو معاشی حوالے سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، ہم نے جیونی میں درجنوں چھوٹے چھوٹے کشتیوں کو سمندرسے باہر ٹوٹ پھوٹ کی حالت میں دیکھے ہیں

جبکہ سر بندر میں ماہی گیروں کے مطابق ماہی گیری کے جال سیلابی پانی میں بہ چکے ہیں، یہاں کے ماہی گیر کمیونٹی کے مطابق وہ سیلاب کے بعد معاشی حوالے سے صفر پر کھڑے ہیں، ان کی معاشی ذرائع مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ جبکہ پیشکان اور اس کے گرد و نواح کے وہ علاقے جن کے معاشی ذرائع ایگریکلچر اور مال مویشیوں سے وابستہ ہیں وہ بھی معاشی حوالے سے شدید نقصانات کی زد میں ہیں۔ جبکہ تا حال متعدد مضافاتی علاقوں میں سیلابی پانی گھروں اور گلیوں کے اندر موجود ہے جس سے ان علاقوں میں خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے اور متعدد علاقوں میں پانی کے قلت کے سبب لوگ سیلابی پانی کو پینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس سے متعدد بیماریوں کے جنم لینے کے خدشات ہیں۔ جبکہ ان مضافاتی علاقوں میں کنٹانی سمیت دیگر ایسے بھی علاقے ہیں جہاں سیلابی پانی کے سبب وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہو رہی ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ جن جن علاقوں میں رسائی ممکن نہیں ہو رہی ہے وہاں بہت زیادہ نقصانات کا خدشات ہے۔

ہم اس پر یس کا نفرنس کے توسط سے بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہمارے غم اور خوشی مشتر کہ ہے اور بحیثیت قوم ہم ریاست اور ریاست کے کرپٹ اداروں کا انتظار کرنے کے بجائے ہمیں بطور بلوچ آگے بڑھ کر اپنی قوم کی مدد کرنی چاہیے۔ ہم سجھتے ہیں کہ ہم مشکل وقت میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کر کے ایک ترقی یافتہ قوم بننے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں کیونکہ دنیا کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ قومیں دوسرے کے سہارے اور امداد پر ترقی نہیں کر سکتے ہیں بلکہ اپنی بازوں قوت پر یقین کر کے اپنی مدد آپ کی بنیاد پر قو میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ آج ہم اس فلسفہ (دوسرے کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے بازوئے قوت پر یقین کر کے آگے بڑھنا) کو اپنا کر اس محلے سمیت پوری دنیا کے سامنے بلوچ قوم کو زندہ اور ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔ آج بلوچستان سمیت دنیا بھر میں رہنے والے بلوچ قوم کے افراد آگے بڑھیں اور گوادر سیلاب متاثرین کو ریاست کی رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مدد کریں اور ان کے زندگیوں کو بحال کریں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر میں ناقص انفرا اسٹرکچر کے سبب سیلاب میں بلوچ عوام کی مدد کے لیے”ھم سنتی مہم کا آغاز کرتی ہے جس میں کل سے بلوچستان بھر میں تین روزہ امدادی کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ "ھمسنتی مہم میں ادویات، کمبل، پانی نکالنی والی مشین، راشن اور بچوں کے خوراک کے لیے بھر پور مدد کریں۔ جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر شہر میں ایک مرکزی امدادی اور رابطہ کیمپ قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر شہر اور تمام مضافاتی علاقوں میں میڈیکل کیمپ اور امدادی سر گرمیوں کو جاری رکھے گا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے رابطہ اور معلومات لینے کے لیے اس کے آفیشل رابطہ نمنر، آفیشل ای میل ایڈریس اور سوشل میڈیا پیجز کے زریعے رابط کیا جاسکتا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے