مغرب مسلم لبرلز کو کھو رہا ہے

WhatsApp-Image-2024-02-26-at-21.04.02-750x430.jpeg

غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن جنگ کے آغاز کے بعد ،جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے خوفناک حملوں کے بعد شروع ہوا،واشنگٹن میں پالیسی ساز اس تنازعے پر قابو پانے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ لبنان سے لے کر شام، عراق اور اردن اور یمن تک پھیلی ہوئی عسکری کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہ اس میں زیادہ کامیاب نہیں رہے ہوں گے۔
لیکن ایک اور مسئلہ ہے جس سے وہ پوری طرح واقف بھی نہیں ہیں: پورے مشرق وسطی اور یہاں تک کہ وسیع تر مسلم دنیا میں، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف غیر معمولی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کے دیرپانتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے اثرات سے کہیں زیادہ بدتر ہو سکتا ہے —جس کی مثال ان دنوں کچھ لوگوں کے ذہن میں ہے — کیونکہ اسرائیل نے غزہ میں جو قتل عام کیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ برا لگتا ہے جو مشرق وسطی میں امریکی فوجی مداخلت کے دوران ہوا تھا۔
خطےکا کوئی بھی قریبی مبصر اسے دیکھ سکتا ہے۔ ان میں مشرق وسطی کی سیاست کے معروف ماہر Fawaz Gerges بھی شامل ہیں۔انہوں نے دسمبر میں خبردار کیا تھا : “میں نے کبھی بھی اس خطے کو اتنا دھماکا خیز، ابلتا ہوا نہیں دیکھا۔ نہ صرف اسرائیل کے خلاف بلکہ امریکہ کے خلاف بہت غیظ و غضب ہے۔‘‘

اسی طرح پاکستانی صحافی عمر فاروق کا کہنا تھا کہ “غزہ میں جاری جنگ مسلم دنیا کو بدل رہی ہے —ان کا استدلال ہے کہ ایک بڑے پیمانے پر غصہ پایا جاتا ہے، جومسلم معاشروں میں بنیاد پرست رجحانات کو فروغ اور شاید نئے دہشت گرد گروہوں کو جنم دے گا۔یہ غصہ کیوں؟ کیونکہ لاکھوں لوگ اکثر لائیو ٹیلی ویژن پر غزہ کے ہولناک مناظر ہر روز دیکھ رہے ہیں۔ پورے محلےبمباری کا شکار ہیں، شیرخواروں اور بچوں کی لاشیں ملبے سے نکل رہی ہیں۔ نسبتا پرسکون مغربی کنارے میں بھی معصوم شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ مقامی صحت کے حکام کی رپورٹ کے مطابق اب تک 28,000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ 90 فیصد غزہ کے باشندے بے گھر ہوچکے ہیں، اور وہ بھوک اور بیماری کے دہانے پر ہیں۔

بہت سے مسلمان دیکھتے ہیں کہ مغربی رہنما، جیسا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس معاملے کے بابت کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ سنتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ (جنگی) مہم جاری رکھنے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کو مزید امریکی ڈالر اورہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں۔بلاشبہ،سرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، جیسا کہ کوئی بھی منصف مزاج مبصر قبول کرے گا۔ کسی بھی ملک کو اُن دہشت گردوں کے خلاف (کارروائی) کا حق حاصل ہےکہ جو اُس کے معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کیسے جائز ہوگی جس میں درجنوں معصوم شہریوں کو مارا جاتا ہے؟ اموات کی خوفناک حالیہ شرح تاریخ میں کسی بھی دوسرے تنازعہ سے بدتر اور وسیع تر ہے؟ اتنے بڑے پیمانےپر خوراک، پانی، اور دوائیوں سے محرومی کودوطرفہ نقصان کے طور پرکیونکر معاف کیا جائے گا؟ موصل، عراق جیسے گنجان آباد شہر سے دولت اسلامیہ کو بے دخل کرنے کی وحشیانہ جنگ میں (نسبتاً) بہت کم شہری ہلاک ہوئے۔

بہت سے لوگوں کے لیے، خاص طور پر مسلم دنیا میں، اس کا جواب یہی لگتا ہے کہ اسرائیلیوں کی جانیں فلسطینیوں کی جانوں سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔اوریہ ان لبرل اقدار کے تاریخی انکار کے طور پر سامنے آتا ہے جن کی مغربی حکومتوں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمےکے بعد سے حمایت کی ہے: عالمی انسانی حقوق اور انسانی زندگی کو پیدائشی طور پر حاصل عزت و وقار۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ ان بلند و بالا آدرشوں کی مکمل پیروی نہیں کی گئی، کیونکہ قومی مفادات، اتحاد اور منافقت اکثر دوہرے معیارکا باعث بنتے ہیں۔لیکن ماضی کی مثالیں شاید ہی کبھی آپ کے سامنے اس طرح کی صریح صورت میں تھی۔ جیسے کہ دوست عرب آمروں کے لیے امریکی حمایت، یا ایران یا کسی اور جگہ سی آئی اے کی حمایت یافتہ بغاوتیں

مغربی اصولوں پر بھروسے کا خاتمہ صرف ان لوگوں کو متاثر نہیں کر رہا ہے جو پہلے سے ہی امریکہ مخالف ہونے کی طرف مائل ہیں یا مغربی سربراہی پر مبنی آرڈر کے ناقد ہیں۔ بلکہ ان میں لبرل جھکاؤ رکھنے والے مسلمان بھی ہیں جنہوں نے طویل عرصے سے مغرب کی سیاسی اقدار کی تعریف کی ہے اور اکثر ان کی طرف رجوع کیا ہے، لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ معیارکے علمبردار نے اپنے ہی اصولوں سے روگردانی کی ہے۔ ان میں سے ایک ترک صحافی Nihal Bengisu Karaca ہیں، جس نے ” مغرب کی خودکشی” کے عنوان سے لکھا۔”اب سے، دنیا کے اس طرف،کون ‘عالمی اقدار’، ‘مغربی لبرل جمہوریتوں’ کا حوالہ دے سکتا ہے… انکی کون سنے گا؟”

ایک اور آزاد خیال مسلمان اور پاکستانی ڈپلومیٹ حنا ربانی کھر جنہیں 2011 میں ملک کی پہلی خاتون خارجہ امور کی وزیر کے طور پر عالمی سطح پر سراہا گیا، “مغربی ساکھ کا بحران” کے تحت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں، “مجھے یقین ہے کہ مغرب کے پاس اپنےانسانی حقوق اور ترقی کے ریکارڈ کے حوالے سے شہرت کے لیے بہت کچھ ہے”۔ انہوں نے جنوری میں الجزیرہ میں لکھا، ” لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ مغرب نے اپنے جغرافیہ سے باہر ان اصولوں کو واضح طور پر نظر انداز کیا ہے”۔اسکے بعد انہوں نے ایک انتباہ جاری کیا: “واشنگٹن کا آج کا موقف نہ صرف اسے واحد قابل اعتماد عالمی طاقت کے طورپر فروغ دینے کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا، بلکہ مستقبل میں امن کار کے طور پر کردار ادا کرنے کی اس کی صلاحیت کو بھی سبوتاژ کرے گا۔”
دوسروں کو مغرب کی طرف سے اس سے بھی زیادہ پسپائی کا سامنا ہے اور جو واضح طور پر اس سے دستبردار ہوتے ہیں۔

اس کی ایک ڈرامائی مثال موریطانیہ کے فلسفے کے پروفیسر Al-Mustafa Ould Kalib کا ایک پیغام تھا، جو مبینہ طور پر عرب سوشل میڈیا پر پر وائرل ہوا ۔ پروفیسر نے لکھا، ’’میں اپنے طالب علموں کے سامنے شرمندہ ہوں جنہیں میں نے دہائیوں سے روشن خیالی اور جدید مغربی فلسفے کے بارے میں پڑھایا ہے۔‘‘ انہوں نے “انسانیت”، “ترقی،” اور”آزادی” جیسے مغربی تصورات کی “توصیف” کرنے کے لیے معذرت کی، مزید اضافہ کیا : “مغرب تاریخ کاسب سے بڑا جھوٹ ہے۔”

امریکی مسلمانوں میں بھی، جن میں سے اکثر ان آزادیوں اور مواقع کو سراہتے ہیں جو وہ امریکہ میں حاصل کر چکے ہیں، واشنگٹن کی پشت پناہی سے غزہ میں ہونے والے قتل عام نے ایک بے مثال مایوسی پیدا کی ہے۔ اس عوامی احساس کا اظہار ممتاز امام عمر سلیمان نے کیا، جنہوں نے غزہ میں مارے جانے والے بچوں کی تصاویر سے مشتعل ہو کر اعلان کیا کہ ، “بین الاقوامی قانون یا انسانیت کے معیار کی علامت مردہ ہے۔ وہ لوگ جو عام طور پر اُن کے بارےمیں تذکرہ کرتے ہیں، اُنہوں نے مزید کہا: “ہمیں پھر کبھی اخلاقیات پر لیکچر نہ دیں۔ تمہارے دل مردہ ہو چکے ہیں۔‘‘
بطور ایک مسلمان جو اب بھی لبرل نظریات اور یہاں تک کہ مغرب کی خصوصیات پر یقین رکھتا ہے، میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو مغرب کی مخالفت کی طرف راغب ہیں۔ میں انہیں یاد دلاؤں گا کہ دنیا بھر میں میرےبہت سے ہم مذہبوں کو نام نہاد مشرق سے زیادہ خطرہ ہے۔ ان میں یوکرین اور بلقان کے مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں روس اور اس کے اتحادیوں سے خطرہ ہے اور چین کی طرف سے بے رحمی کے ساتھ مذہبی جبر کے شکار ایغور مسلمان بھی۔ کم ازکم مغرب میں حکومتوں کو اب بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، انسانی حقوق کےگروہ بول سکتے ہیں، امن کےکارکنوں کو سنا جا تا ہے، اور عوامی دباؤ کے ذریعے ہمیشہ کے لیے جنگیں ختم ہو سکتی ہیں-کیونکہ وہاں آزادی اظہارہے۔
پھربھی، غزہ کے اثرات اس بنیادی لبرل قدر کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یورپ، خاص طور پر جرمنی میں، جہاں سنسر شپ کے ایک بے مثال لہر کے تحت اسرائیل پر تنقید اور فلسطین کے حمایت کے کسی بھی قسم کے اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن- یہاں تک کہ صرف فلسطینی جھنڈے اور کیفیاں بھی پابندی کی ذد میں آ سکتی ہیں. ریاستہائے متحدہ میں، نینسی پیلوسی جیسی ممتاز سیاست دان، ایوان نمائندگان کی سابق سپیکر “اب جنگ بندی کرو” جیسے مظاہروں کو روس کی طرف سے غیر ملکی سازش کے ساتھ نتھی کر سکتی ہے۔ اسی قسم کا الزام خود روس، یا ایران میں، حکومت مخالف مظاہروں کو شیطانی قرار دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ تیزی سے مغرب اور اس کے لبرل بیانیہ کو باقیوں کی نظروں میں بدنام کر رہا ہے۔ کیونکہ اگر انسانی حقوق تمام انسانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں، اور اگر اظہار رائے کی آزادی تمام آوازوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے، تو ان اصولوںکا کوئی مطلب نہیں ہے۔ دنیا اس کے بجائے جرمنی کے Third Reich کے مذموم اصول کے تحت چلتی دکھائی دیتی ہے۔ Carl Schmittکی تعریف کے مطابق: خود مختار طاقتیں اپنی مرضی سے اپنے قوانین کے استثناء کی وضاحت کر سکتی ہیں۔
ایسی وحشیانہ ما بعد لبرل دنیا ہم سب کے لیے ایک خوفناک جگہ ہوگی۔ جیسے جیسے مغربی جمہوریتیں اپنے اصولوں کو پس پشت ڈالیں گی، روس، چین اور ایران جیسی غیر لبرل قوتیں مزید طاقت اور وقار حاصل کریں گی۔ مسلم دنیا میں نئےعسکریت پسند گروہ ابھر سکتے ہیں، جو اس سے بھی زیادہ خونخوار ہوں جیساکہ ہم نے دیکھا ہے۔ تہذیبوں کا حقیقی تصادم نہ سہی تو اور بھی بدتر تنازعات کو ہوا دیتاہے۔یہ مستقبل میں جنگ کے وقت اتحاد قائم کرنے یا اپنے مخالفین کے خلاف پابندیوں کی حمایت کرنے کی امریکی اور یورپی کوششوں کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ جیسا کہ فارن پالیسی کی ڈپٹی ایڈیٹر Sasha Polakow-Suransky نے ان صفحات میں متنبہ کیا، جو کہ جیوسٹریٹیجک تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے لکھا، “یورپ اور شمالی امریکہ سے باہر زیادہ تر غیر ملکی رہنما اور آبادی اب صرف انسانی بنیادوں پر یوکرین کی حمایت کے لیے امریکی یا یورپی اپیلوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے”۔ انہوں نے لکھا، اور مستقبل کی اخلاقی اپیلیں خواہ کتنی ہی معقول کیوں نہ ہوں اس کی پذیرائی نہ ہونے کا امکان ہے”.

جو بات سب سے زیادہ مایوس کن ہے وہ یہ کہ مغربی پالیسی، جس نے دنیا کو اس خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے، اسرائیل کی تاریخ کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے زیر قیادت تباہ کن جنگ کے لیے یہ غیر ناقدانہ حمایت اسرائیل کے لیےبھی اچھی نہیں ہے۔ پچھلے چار مہینوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یرغمالیوں کی بڑی تعداد کومسلسل حملوں کی بجائے سفارتی مذاکرات کے ذریعے بچایاجا سکتا ہے۔ جیسا کہ ماہرین شروع سے کہہ رہے ہیں کہ حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا کٹھن ہدف حقیقت پسندانہ نہیں ہے ۔ اس کے بجائے، تجربہ کار Harteez کے تجزیہ کار صحافی Gideon Levy خبردار کرتا ہے کہ آخرمیں اسرائیل کے وقار کو نقصان پہنچے گا اور حماس کو فاتح کا تاج پہنایا جائے گا۔”

اعتدال پسندی کی ایسی اسرائیلی آوازیں کافی نہیں سنی جا سکتی ہیں، کیونکہ اسرائیلی قوم 7 اکتوبر کی ہولناکی کے بعدصدمے اور انتقام کے لمحے کا سامنا کررہی ہے جیسے کہ امریکہ نے 11/9کے حملوں کے بعد سامنا کیا تھا۔ لیکن یہی وجہ ہے اسرائیل کے دوستوں کو اس کے کچھ بدترین اداکاروں کو بلینک چیک نہیں دینا چاہیے، جن میں سرکاری افسران بھی شامل ہیں جو نسلی کشی کی کھلی دعوت دے رہے ہیں

ملکی سلامتی کے چیلنجوں کے بارے میں گہری جانکاری رکھنے والی سنجیدہ اسرائیلی آوازیں بھی طویل مدت میں ختم ہوتی نظر آتی ہیں۔ ان میں اسرائیل کی داخلی سلامتی ایجنسی Shin Bet کے سابق سربراہ Ami Ayalon بھی ہیں جو دانشمندی سےخبردار کرتا ہے” ہم اسرائیلیوں کو سلامتی تبھی ملے گی جب انہیں (یعنی) فلسطینیوں کو امید ہو گی۔” سابق وزیراعظم ایہود بارک نے کہا ہے کہ “ہماری اپنی سلامتی، ہمارے اپنے مستقبل کے لیے، اسرائیل کا انجام فلسطینی ریاست ہونا چاہیے۔مختصریہ کہ جو لوگ فلسطینیوں کی امیدوں کو تباہ کر رہے ہیں وہ نہ صرف غزہ کا حال برباد کر رہے ہیں بلکہ اسرائیل کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ وہ ہماری پہلے سے ہی ہنگامہ خیز دنیا میں آزادی اور امن کے مستقبل کو بھی خطرےمیں ڈال رہے ہیں۔

اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، بائیڈن انتظامیہ کو فوری جنگ بندی، فوری ریلیف اور امن کےلیے واضح راستے پر زور دے کر اپنا لائحہ عمل بدلنا چاہیے۔بصورت دیگر مغرب کے پاس جو بھی سیاسی دانشمندی یا اخلاقی اتھارٹی تھی وہ باقیوں کی نظروں سے غائب ہو سکتی ہے۔ چین، روس، ایران، اور دیگر مطلق العنان حکمرانوں کو وہ وقار اور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے جس کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ مسلم دنیا غیر لبرل ازم، بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کی قوتوں کے لیے مزید کھل سکتی ہےاور”لبرل ورلڈ آرڈر”، جو شاید ایک نامکمل لیکن پھر بھی قابل قدر خواہش تھی، اس کی جگہ ایک زیادہ مذموم، پرتشدد اورجابرانہ انتشار لایا جا سکتا ہے۔

 

تجزیہ نگار :- مصطفٰی اکیول

مصطفیٰ اکیول Cato Institute میں سینئر فیلو اور اسلام اور جدت پسندی پر تواتر کے ساتھ لکھتے رہتے ہیں۔ وہ مشہور کتاب Reopening Muslim Minds: A Return to Reason, Freedom and Tolerance کے مصنف ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے