کیا بلوچستان کے پشتونوں کو دیوار سے لگا کر عسکریت پسندی پر اکسایا جا رہا ہے؟

Abdullah-Achakzai-e1709206924570.jpg.webp

ون یونٹ کے خاتمے کے بعد برٹش بلوچستان کے نام سے موجود پشتون صوبہ کو بلوچ ریاستوں کے ساتھ ملا کر بلوچستان کا نام دیا گیا۔ یہ ایک غیر فطری نام اور غیر فطری الحاق تھا لیکن یہاں موجود پشتونوں نے بوجوہ مجبوری اس کو قبول کیا۔ بسا اوقات ان کے ساتھ سوتیلے بھائی کا سلوک جاری رہا ہے، صوبے کے اکثر بڑے عہدے کبھی بھی رضامندی سے پشتونوں کے حوالے نہیں کیے گئے، مثال کے طور پر بلوچستان کا وزیراعلی کبھی بھی کوئی پشتون رہنما نہیں بنا۔ فنڈز کی تقسیم ہو یا سرکاری نوکریوں کی تقسیم ہر معاملے میں پشتون قوم کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

2013 میں محمود خان اچکزئی کے پشتونخوا میپ اور ڈاکٹر مالک بلوچ کے نیشنل پارٹی کے درمیان اتحادی گورنمنٹ کے اتحاد کا بنیادی نقطہ یہی تھا کہ پشتون بلوچ بھائی بھائی بن کر ہر چیز میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ وزیراعلی بلوچ ہو تو گورنر پشتون ہو گا، وفاقی پی ایس ڈی پی ہو یا صوبائی پی ایس ڈی پی سب کچھ 50 / 50 کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے ۔ ان کے دور میں بہت بہتر انداز میں معاملات چلے۔ لیکن بدقسمتی سے انہیں دوبارہ موقع نہیں دیا گیا اور ان کے بنائے گئے فارمولے کو بھی آنے والے گورنمنٹ نے جاری نہیں رکھا۔

2018 میں پہلے تو ان دونوں جماعتوں کو مکمل طور پر اسمبلی سے دور کیا گیا اور جو حکومت بنی، انہوں نے مکمل طور پر ان کے بنائے گئے فارمولے کے برعکس کام کیا۔ 2018 سے 2023 تک وفاقی پی ایس ڈی پی ہو یا صوبائی، دونوں میں پشتون بیلٹ کو مکمل نظر انداز کیا گیا، 10 فیصد پشتون بیلٹ میں خرچ کیا گیا اور 90 فیصد بلوچ بیلٹ کو دیے گئے۔

پچھلے دور حکومت میں کی گئی مردم شماری میں پشتونوں کی آبادی پر 35 سے 40 لاکھ تک کٹ لگایا گیا، پشتون بیلٹ کے بڑے اضلاع کوئٹہ، پشین، چمن قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ کی آبادی 35 سے 40 لاکھ کم شمار کی گئی جبکہ دوسری جانب بلوچ بیلٹ میں درجن کے قریب ایسی اضلاع بھی تھی جن کی آبادی پچھلے پانچ سال میں 80 فیصد بڑھ گئی تھی اور سالانہ شرح پیدائش 8 سے 9 فیصد رہا جو کہ عالمی سطح پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

اسکے بعد دوسرے مرحلے میں پشتونوں کے صوبائی و قومی حلقے کم کیے گئے اور 2018 میں پشتون بیلٹ میں جو صوبائی 23 حلقے تھے انہیں 2023 میں کم کر کے 19 کیے گئے۔ حلقہ بندیوں کے تعین کا فارمولا سمجھ سے بالاتر تھا پشتون بیلٹ میں ایک صوبائی حلقہ 5 لاکھ آبادی پر دی گئی تھی لیکن بلوچ بیلٹ میں صرف ایک لاکھ آبادی پر بھی حلقہ دیا گیا تھا

چمن قلعہ عبداللہ گیارہ لاکھ آبادی پر مشتمل علاقہ ہے 2002 سے اس ضلع کے تین حلقے تھے لیکن 2023 میں اس کو بڑھانے کی بجائے کم کر کے دو کر دی گئی۔ موسی خیل کو بارکھان کے ساتھ رکھ کر پشتون کو اقلیت بنا دیا گیا۔ ہرنائی کا سیٹ ختم کیا گیا۔ ژوب کے ساتھ شیرانی رکھا گیا اور جہاں تین سیٹ بننے تھے وہ دو کر دیے

اس کے بعد افغانوں کے انخلاء کے نام پر پورے ملک میں پشتونوں کا کاروبار تباہ کیا گیا، سندھ اور پنجاب کے علاوہ یہاں بلوچستان میں بھی ہر پشتون کو افغان مہاجر تصور کیا جاتا تھا اور ان کے اوریجنل شناختی کارڈ کو بھی نہیں مانا جاتا تھا۔ اس دوران پشتون بیلٹ کا کاروبار تباہ ہو گیا اور ہر پشتون ملک اور صوبے میں سفر کرتے ہوئے تمام دستاویزات رکھتے ہوئے بھی مشکلات کا سامنا کرتا تھا۔

اسکے بعد بارڈر پر پاسپورٹ کے عملی بنانے کے نام پر چمن بارڈر سیل کیا گیا اور یہاں کے لاکھوں لوگوں کا افغان ویش منڈی میں موجود کاروبار تباہ کیا گیا اور اس کے برعکس نوشکی بارڈر پر کھلے عام بغیر پاسپورٹ کے تجارت اور اسمگلنگ کی اجازت دی گئی جو اب بھی زور و شور سے جاری ہے، اس ظلم کے خلاف چمن کے ہزاروں لوگ کئی مہینوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں لیکن مقتدر قوتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

حالیہ الیکشن میں پہلے تو ژوب سے کچلاک تک حقیقی لیڈرشپ کی جیت کو ہار میں تبدیل کر کے اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کو مسلط کیا گیا۔ کوئٹہ جو دو سو سال سے پشتون اکثریت شہر ہے، اس میں پشتونوں کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا، یہاں نو صوبائی نشستوں میں سے 2023 سے پہلے بمشکل دو بلوچ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے تھے لیکن اس بار پانچ بلوچ ارکان پارلیمنٹ کوئٹہ سے منتخب ہو کر صوبائی اسمبلی کا حصہ بنے ہیں۔ جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئٹہ پشتونوں کا شہر نہیں ہے۔

پشتون دشمنی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور انیس پشتون صوبائی ممبران اور چار پشتون قومی اسمبلی ممبران جمیعت، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا حصہ بن گئے جن کی تعداد کے حساب سے چار صوبائی خواتین نشستیں، دو قومی خواتین کی نشستیں اور ایک ایک اقلیت کی نشستیں ملنے تھے لیکن یہاں بھی تعصب کا اظہار کرتے ہوئے سوائے عوامی نیشنل پارٹی کے باقی سب پارٹیوں نے بلوچ، سندھی، پنجابی امیدوار سلیکٹ کیے یعنی آٹھ ملنے والی نشستوں پر محض ایک پشتون خاتون اسمبلی جا سکی باقی سب نے بلوچ، سندھی اور پنجابی ان کی جگہ پر بھیجیں ہیں

ان تمام نا انصافیوں کا ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پشتون قوم کو عسکریت پسندی پر اکسایا جا رہا ہے اور جان بوجھ کر ایسے حالات بنائے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کے پشتون مجبور ہو کر اپنے جائز حقوق سیاسی اور جمہوری طریقے سے حاصل کرنے کی بجائے تلوار اور بندوق کے ذریعے حاصل کرنے کا اعلان کریں۔

 

کالم نگار :- عبداللہ ایمانداد اچکزئی

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے