حکومت سازی میں سیاسی جماعتوں کی ہچکچاہٹ، حل کیا ہے؟

336571-921576364.jpg

آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات پر جہاں ابھی تک سوال اٹھ رہے ہیں وہیں وفاق کی سطح پر حکومت سازی کا عمل مشکلات کا شکار ہے۔انتخابی نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ جن دو جماعتوں نے حکومت سازی کی بات کی تھی ان میں سے بڑی جماعت خود ہی اس عمل سے پیچھے ہٹتی نظر آ رہی ہے۔
تحریک انصاف بھی کسی دوسری جماعت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے جہاں قومی حکومت کی چہ مگوئیاں سنائی دیتی ہیں وہیں کچھ جماعتوں کی جانب سے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ بھی سامنے آنے لگا ہے۔اس وقت پاکستان میں ہر دوسرے فرد کا ایک ہی سوال ہے کہ موجودہ صورت حال سے کیسے نکلا جائے اور اس کا حل کیا ہے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قومی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے قومی مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس سے ایک تو وقتی طور پر سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئے گی دوسرا حکومت سازی کا عمل آگے بڑھے گا۔تجزیہ کار اور سابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر انتخاب میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ یہ تحفظات کچھ زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے آئین میں ان تحفظات کو سننے کا طریقہ کار تو موجود ہے لیکن انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے تو یہ لگ رہا ہے کہ تین بڑی جماعتوں میں دو مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور وہ کب تک چلے گی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی جماعتیں متحد ہو کر حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہوتیں تو بھی کوئی ادارہ اپنے طور پر انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ اس ے لیے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے۔ تمام منتخب ارکان کی حلف برداری ہو۔ اس کے بعد سپیکر، ڈپٹی سپیکر کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔ جس کے بعد قائد ایوان کا انتخاب ہو اور بار بار کوشش کے باوجود جماعت بھی ایوان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکتی تو ایسی صورت میں صدر اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورت حال میں تجزیہ کار رسول بخش رئیس بھی حسن عسکری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسمبلی کا اجلاس اور قائد ایوان کے انتخاب کی کوشش کے بغیر دوبارہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ اس لیے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صورت حال کو سمجھیں اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔
انھوں نے کہا کہ آج ہونے والے احتجاج اور گرفتاریوں کو سامنے رکھیں تو یہ کوئی دانش مندی نہیں ہے بلکہ اس سے قومی سطح پر اتفاق رائے میں مشکل پیدا ہو گی۔
سینیئر صحافی سلمان غنی کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں کسی بھی جماعت کے پاس سادہ اکثریت نہیں۔ جن دو جماعتوں نے حکومت بنانے کی بات کی تھی وہ بھی مزید پیش رفت نہیں کر سکیں۔ جس کے بعد غیر معمولی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ ملکی صورت حال کے تناظر میں دوبارہ انتخابات ممکن نہیں تاہم تمام جماعتوں کو قومی مذاکرات کی جانب جانا چاہیے۔بے شک تمام سیاسی جماعتیں اس حکومت میں شامل ہو جائیں لیکن قومی ایجنڈے پر متفق ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے