بلوچستان میں انتخابات کی بے ضابطگی
بلوچستان میں انتخابات بلوچ مسلح تنظیموں کے حملوں و دھماکوں کے سائے میں ہوئے۔ مسلح تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر نے بڑے پیمانے پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں، اُن کے دفاتر، پولنگ اسٹیشنوں اور پاکستان کے افواج پر حملے کئے، جس سے بلوچستان میں انتخابات سخت متاثر ہوئے اور کئی علاقوں میں انتخابات ممکن تک نہیں ہو پائے۔
عمومی طور پر بلوچ قوم نے بڑے پیمانے پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا، بالخصوص کیچ اور بالعموم بلوچستان کے کئی علاقوں میں مبینہ ریاستی ظلم و جبر کے خلاف بلوچ خواتین نے بطور احتجاج پولنگ اسٹیشنوں کے جلاؤ گھراؤ کیا، اُن کے سامنے دھرنے دیے اور انتخابات کے عمل کو احتجاجاً سبوتاژ کیا، جس سے اِن علاقوں میں انتخابات نہیں ہوپائے اور آزادی پسند حلقے انتخابات سے بائیکاٹ کو بلوچ قوم کی ریاستی قبضے کو مسترد کرنا قرار دیتے ہیں۔بلوچستان میں ووٹ ڈالنے کا تناسب انتہائی کم رہا، کئی علاقوں میں ٹرن آوٹ تین سے پانچ فیصد رہا اور حسب دستور وسیع پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے مقتدر قوتوں کے نزدیک سمجھے جانے والے لوگوں کو کامیاب کیا گیا۔ جس سے یہ خیال مزید مستحکم ہوا ہے کہ ریاست پارلیمان میں بلوچ قومی مسائل سننے کے لئے آمادہ نہیں ہے اور اُن لوگوں کو بلوچستان کے سیاست پر مسلط کررہا ہے جو مقتدر قوتوں کے ایجنڈوں کی پیروی کررہے ہیں۔بڑے پیمانے پر انتخابات سے لاتعلقی اور بائیکاٹ سے بلوچ قوم نے اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے پارلیمان کو بلوچ مسئلہ کو حل کرنے کا ذریعے نہیں سمجھتے ہیں اور بلوچستان میں غیر پارلیمانی و مزاحمتی سیاست کے ذریعے ہی بلوچ قومی حقوق حاصل کرنے کا خیال پروان چڑھ رہا ہے