حماس کا خاتمہ کسی کے بس میں نہیں، یہ فلسطین کی سیاسی حقیقت ہے، روس
قطر میں روس کے سفیر نے کہا ہے کہ ماسکو فلسطینی گروپوں کے نمائندوں کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں حماس بالخصوص شامل ہے۔ دوحہ میں ماسکو کے سفیر دمتری دوگادکین کا کہنا تھا کہ روس اور حماس کے درمیان بات چیت صرف (روسی) قیدیوں کی رہائی کے معاملے تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان ملاقاتوں میں تنازع کے خاتمے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں پر بھی بات چیت کی گئی، حماس فلسطینی سیاسی منظر نامے کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے اور اس کے نمائندوں کو بلا تفریق سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق ہونا چاہیے، اسماعیل ہنیہ کے نائب، جناب موسیٰ ابو مرزوق نے اب تک دو بار ماسکو کا سفر کیا ہے اور نائب وزیر خارجہ اور مشرق وسطیٰ کے امور کے لیے صدر کے نمائندے میخائل بوگدانوف سے ملاقات کر چکے ہیں۔
روسی سفیر نے غزہ جنگ کو روکنے کے لیے دوحہ کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ قطر سمجھتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے طویل ہونے سے مائع قدرتی گیس اور درآمدی سامان کی مقامی منڈی میں ترسیل کی لاگت بڑھ جائے گی، اور اس لیے وہ اسے روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ ماسکو کی جانب سے فلسطین کے سیاسی منظر نامے میں حماس کے کردار پر زور دیینے کی بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب امریکہ اور بعض مغربی ممالک اس مزاحمتی تحریک کو دہشت گرد شمار کرتے ہیں، اور اور امریکی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ غزہ جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو، حماس کے لیے غزہ کے سیاسی مستقبل میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں حماس کے حکام نے بھی متعدد بار ماسکو کے تعاون کو سراہا ہے، فلسطینی رہنما اسماعیل ھنیہ سلامتی کونسل میں روس اور چین کے موقف اور جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں صیہونی حکومت کی حمایت میں امریکی قرارداد کو بے اثر کرنے کی بھی تعریف کر چکے ہیں۔