عمران خان&جنرل عاصم منیر ڈیڈلاک توڑ سکتے ہیں؟

download-1.jpg

پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس وقت اس صورت حال کا سامنا کررہی ہے جو 1988 الیکشن بعد آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور ان کے فوجی کمانڈرز کررہے تھے۔بینظیر بھٹو کی پارٹی اس وقت کی فوجی قیادت جنرل بیگ اور اور آئی ایس آئی کی کوششوں کے باوجود الیکشن جیت چکی تھی۔
اس وقت بینظیر بھٹو کے خلاف سیاسی محاذ نواز شریف نے سنبھالا ہوا تھا جو نگران وزیراعلی پنجاب تھے۔ اگرچہ بینظیر کے پاس حکومت بنانے کے لیے نمبرز ابھی کچھ کم تھے۔ فوج اور صدر غلام اسحاق خان بینظیر کو روکنا چاہتے تھے۔ فوج کے کہنے پر ہی نواز شریف، مصطفے جتوئی اور آئی ایس آئی حمایت یافتہ آئی جے آئی کے الائنس کے لوگ پیش پیش تھے۔
فوج اقتدار بھٹو خاندان کو واپس کرنے کو تیار نہ تھی۔ خطرہ تھا بینظیر بھٹو اپنے باپ کی پھانسی کا بدلہ لیں گی۔
خیر جنرل بیگ پر کچھ بیرونی دبائو بھی آیا شاید امریکن کا۔ بینظیر دبائو ڈال رہی تھیں کہ ایکٹنگ صدر اسحاق انہیں وفاقی حکومت بنانے کی دعوت دیں لیکن وہ انکاری تھے۔
آخر جنرل بیگ نے بینظیر بھٹو کو آرمی ہاوس کھانے پر بلایا۔کچھ معاملات پر کہا وہ نو گو ایریاز ہوں گے۔جنرل ضیاء کی فیملی سے بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ وزیرخارجہ ان کا اپنا ریٹائرڈ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان ہوگا۔ نیوکلیر پروگرام پر بات نہیں ہوگی۔ افغان، انڈیا پالیسی فوج چلائے گی۔
بینظیر بھٹو کے سامنے آپشن تھا وہ اس ڈیل سے انکار کر دیں۔ لیکن انہوں نے ڈیل لی کیونکہ ان کا کہنا تھا ان کے سیاسی ورکرز نے جنرل ضیاء دور میں بہت مشکل وقت دیکھا تھا۔ وہ ابھی بھی جیلوں میں تھے۔ انہیں ریلیف درکار تھا۔یوں جنرل بیگ اور بینظیر نے کچھ لو کچھ دو کی بیناد پر وہ ڈیڈ لاک توڑا۔
سوال یہ ہے آرمی چیف جنرل عاصم منیر ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں یا عمران خان کے اندر اتنی سیاسی میچورٹی آگئی ہے کہ وہ ان حالات میں کوئی بڑا فیصلہ کرسکتے ہیں؟اگرچہ بہت لوگ کہیں گے بینظیر بھٹو جیل میں سزا یافتہ نہیں تھیں جیسے عمران خان ہے اور نہ جنرل بیگ ساتھ ان کے اس طرح کے ذاتی ناراضگیاں یا ایشوز تھے جیسے جنرل عاصم منیر اور عمران خان کے درمیان موجود ہیں۔ لیکن یہ نہ بھولیں بینظیر بھٹو اس وقت کی فوجی قیادت کو اپنے باپ کی پھانسی کا ذمہ دار سمجھتی تھیں اور جنرل بیگ جنرل ضیاء کے حادثے وقت وائس چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔
اٹھارہ ماہ بعد کیا ہوا وہ الگ کہانی ہے جب جنرل بیگ اور صدر اسحاق نے ببینظیر بھٹو کی حکومت 1990 میں برطرف کی تھی۔ لیکن اس وقت آج کے ملتے جلتے حالات میں جنرل بیگ اور بینظیر بھٹو نے وہ ڈیڈ لاک توڑا تھا۔
سوال یہ ہے کیا آج کی اس خطرناک صورت حال میں عمران خان اور جنرل عاصم منیر دونوں میں اتنی صلاحیت اور سمجھداری ہے کہ وہ ذاتیات سے نکل کر جنرل بیگ اور بینظیر بھٹو والا روٹ لے کر اس خطرناک ڈیڈ لاک کو بریک کریں جس کا شکار اس وقت پاکستان ہے؟

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے