’مذہب کی سیاست‘: پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں اور اِن کے جیتنے کے امکانات کتنے ہیں؟

367a2780-c371-11ee-896d-39d9bd3cadbb.jpg

یہ ایک سرد شام ہے اور لاہور کے علاقے منصورہ میں واقع جماعت اسلامی کے صدر دفتر کی مسجد میں عصر کی نماز کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہیں۔ ان لوگوں میں جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل امیر العظیم بھی شامل ہیں۔اس مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں میں سوار لوگ ایک ریلی کی شکل میں قریبی بازار گئے جہاں انھوں نے اپنی جماعت کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔

جماعت اسلامی آٹھ فروری کے عام انتخابات میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ اس نے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے مجموعی طور پر 774 امیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔انتخابی مہم کے لیے جانے سے قبل امیر العظیم نے البصیر کو بتایا کہ ’ہمارا یہاں موجود لوگوں سے قریبی تعلق ہے۔ ہم ان کے اچھے اور بُرے وقتوں میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ لوگوں نے کورونا کی عالمی وبا، سیلاب اور قدرتی آفات کے دوران ہمارا کام دیکھا ہے۔ مجھے یقین ہے وہ ہمیں ہی ووٹ دیں گے۔‘

جماعت اسلامی کی سیاست

جماعت اسلامی کی بنیاد 1941 میں اسلامی سکالر ابو الاعلی مودودی نے رکھی اور یہ اپنے قیام سے ایک سماجی اور سیاسی تحریک رہی ہے۔یہ پہلی بار انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی۔ بلکہ ماضی میں اس نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر کے بھی الیکشن لڑے ہیں۔ جبکہ یہ جماعت ماضی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بھی رہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود جماعت اسلامی کبھی ایک بڑی سیاسی جماعت نہ بن سکی۔ اس بار جماعت اسلامی بغیر کوئی اتحاد قائم کیے اپنے طور پر انتخابات لڑے گی۔

امیر العظیم نے کہا کہ ’ماضی میں جماعت اسلامی کی ترجیحات الگ ہوتی تھیں۔ پہلے اس کی توجہ اسلام کی دعوت پر ہوتی تھی۔ ہم ادبی کتب تیار کرتے تھے اور اسلام کا پیغام مصر سے لے کر افریقہ تک پہنچاتے تھے۔ اگلے مرحلے میں ہم نے بنیادی سطح پر لوگوں کی خدمت کا عزم کیا۔ہم نے جماعت اسلامی کی خیراتی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن قائم کی۔ اب ہماری توجہ اس پر ہے کہ ہم جماعت اسلامی کو مرکزی دھارے کی سیاست میں لائیں۔ ہمیں شاید شروع میں اتنی کامیابی نہ مل سکے۔ لیکن کبھی نہ کبھی ہم اس میں کامیاب ہو ہی جائیں گے۔

امیر العظیم کی سربراہی میں جماعت اسلامی کے وفد نے بازار میں دکانوں کا دورہ کیا اور دکانداروں میں پمفلٹس تقسیم کرتے ہوئے ان سے ووٹ کی اپیل کی۔ اس دوران بعض لوگوں نے ان کے ساتھ سیلفیاں لیں جبکہ کچھ نے ان سے مہنگائی کی شکایت کی۔امیر العظیم نے ان ووٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملک سے کرپشن اور ایلیٹ کلچر کو ختم کریں گے۔ ’ہم ملک کو معاشی بحران سے نکالیں گے۔‘

جماعت اسلامی انڈیا مخالف جماعتوں میں سے ایک ہے۔ اس پر افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں حصہ لینے کا الزام لگتا رہتا ہے۔ مگر امیر العظیم کہتے ہیں کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے حل کے لیے یہ واحد راستہ ہے۔جماعت اسلامی نے غزہ کے شہریوں کی حمایت میں کئی ریلیوں کا انعقاد کیا ہے اور انتخابات کے لیے مختص رقم کا بڑا حصہ وہاں بھیج دیا ہے۔

تاہم کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی اپنی بنیاد پرست شناخت کو تبدیل کر کے نیا آزاد خیال سیاسی چہرہ سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس بارے میں سوالات پر امیر العظیم کہتے ہیں کہ ’لوگ ہمیں بنیاد پرست سمجھ کر سوچتے تھے کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو ہاتھ کاٹ دیں گے۔ کچھ کا خیال تھا ہمیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور ہم فوج کی بی ٹیم تھے۔میڈیا کی وجہ سے ہمارے بارے میں یہ تاثر قائم ہوا۔ اب سوشل میڈیا نے ہمیں ایک پلیٹ فارم دیا ہے جہاں ہم لوگوں کو اپنے بارے میں اور اپنی سوچ کے بارے میں بتا سکتے ہیں

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)

لاہور میں منصورہ سے کچھ فاصلے پر مسجد رحمت اللعالمین واقع ہے جہاں تحریک لبیک پاکستان کے بانی خادم حسین رضوی کا مزار ہے۔ ان کے شاگردوں کا ایک گروہ یہاں جمع تھا۔ وہ ہاتھ اٹھا کر ’لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ٹی ایل پی ایک قدرے نئی سیاسی و مذہبی جماعت ہے، جو 83 سال پرانی جماعت اسلامی سے مختلف شناخت رکھتی ہے۔ اس کی بنیاد خادم حسین رضوی نے سنہ 2015 میں رکھی تھی۔

تجزیہ کار سلمان غنی کا خیال ہے کہ ٹی ایل پی قدرتی طور پر نہیں بنی۔ اس کا آغاز 2015 میں لاہور کے ضمنی انتخاب سے قبل ایک اور مذہبی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کے ساتھ ہوا۔ملی مسلم لیگ حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ کا سیاسی ونگ تھا۔سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’اس کا مقصد سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کے ووٹوں کو تقسیم کرنا تھا۔

’کلثوم نواز لاہور کے ضمنی الیکشن میں امیدوار تھیں۔ ٹی ایل پی اور ایم ایم ایل کو 15 ہزار ووٹ حاصل کرنے کا ہدف دیا گیا تھا۔ لیکن وہ ایسا نہ کر سکیں۔ کلثوم نواز الیکشن جیت گئیں۔ لیکن ان دونوں جماعتوں نے پہلے انتخابات کے بعد بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔‘اس سوال پر کہ ان دونوں جماعتوں کو کس نے شروع کیا، سلمان غنی براہ راست کسی کا نام نہیں لیتے۔ انھوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ جن لوگوں نے اس طرح کا منصوبہ شروع کیا، اس کے پیچھے ’وہی لوگ‘ تھے۔

ملی مسلم لیگ الیکشن کمیشن میں اپنی رجسٹریشن نہیں کروا سکی اور منظر سے غائب ہو گئی مگر دوسری طرف ٹی ایل پی ہر سال پھلتی پھولتی رہی۔ ناموس رسالت کے معاملے پر یہ جماعت متحرک رہتی ہے۔ کئی بار اس نے اپنے احتجاج کے ذریعے حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ان کے متنازع مطالبات میں پیغمبر اسلام کے کارٹون چھاپنے پر فرانس سے تعلقات توڑنے کا مطالبہ بھی شامل رہا ہے۔ سنہ 2017 میں ٹی ایل پی نے اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایک وفاقی وزیر کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کیا تھا۔

ٹی ایل پی نے اپنے قیام کے تین سال بعد 2018 کے عام انتخابات میں پہلی بار حصہ لیا اور انھیں تقریباً 22 لاکھ ووٹ ملے۔ تاہم اس سے انھیں کوئی بڑی انتخابی کامیابی نہیں ملی۔وہ سندھ اسمبلی میں صرف تین نشستیں جیت سکے۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں ٹی ایل پی ملک کی پانچویں بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ووٹوں کے لحاظ سے یہ صوبہ پنجاب کی تیسری بڑی جماعت تھی۔ یہ بہت سی دوسری جماعتوں اور تجزیہ کاروں کے لیے ایک جھٹکا تھا۔

ٹی ایل پی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد

ٹی ایل پی کے میڈیا مینیجر صدام بخاری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اس الیکشن میں کافی نشستیں حاصل کرے گی۔اُن کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے جن رہنماؤں کو ٹکٹ نہیں ملا وہ ہم سے رابطے میں تھے۔ امیدوار کا فیصلہ کرنے میں ہمیں مہینوں لگے۔ ہم نے انٹرویوز کیے۔‘

’ہم نے پاکستان بھر سے ایسے اچھے امیدوار کھڑے کیے ہیں جو نہ صرف ہماری پارٹی کے نظریے کو سمجھتے ہیں بلکہ جیتنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ٹی ایل پی نے قومی اسمبلی کی 223 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ نامزد امیدواروں کی یہ تعداد ن لیگ اور پی ٹی آئی کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ ٹی ایل پی کا کہنا ہے کہ انھوں نے 36 فیصد ٹکٹ ایسے امیدواروں کو دیے ہیں جن کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔قومی اسمبلی کے لیے اس پارٹی کے ایک امیدوار عابد حسین نے البصیر کو بتایا کہ ٹی ایل پی کا ملک بھر میں اثر و رسوخ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری فیڈرل کونسل تک رسائی ہے۔ ہم کئی امام اور علمائے اکرام سے رابطے میں ہیں۔ ہمیں ان کی حمایت کی یقین دہانی ملی ہے۔ وہ نچلی سطح پر ہماری مہم چلائیں گے۔جماعت کے اشتعال انگیز ماضی سے متعلق سوال پر عابد حسین نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹی ایل پی نے پیغمبر اسلام کی شان میں سڑکوں پر احتجاج کیا۔ ’ہمارے مخالفین ہمیں انتہا پسند کہتے ہیں لیکن غیر جانبدار ووٹر سمجھتے ہیں کہ ہم قومی مفاد میں احتجاج کر رہے ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام ف

مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام یا جے یو آئی ف کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ عمران خان کی حکومت گرانے والے اتحاد میں مولانا سب سے آگے تھے۔ وہ اس سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ تھے جو عمران خان کے جانے کے بعد ڈیڑھ سال کے لیے برسراقتدار آیا۔

جے یو آئی ف کا اثر و رسوخ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں میں زیادہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج نام نہاد دولت اسلامیہ کی جانب سے سکیورٹی تھریٹ ہے۔گذشتہ سال جولائی میں ضلع باجوڑ میں ایک دھماکے میں 50 کے قریب افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ یہ دھماکہ اس جگہ ہوا جہاں جے یو آئی ف کا جلسہ ہو رہا تھا۔انتخابات سے قبل جے یو آئی ف کے کئی امیدواروں اور رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے پیش نظر مولانا فضل الرحمان انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے تاہم وہ اس کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں کر سکے۔

نگراں حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے جے یو آئی ف اپنی کارکردگی پر تنقید نہیں کر سکتی۔ اس لیے وہ اپنے قدامت پسند ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اسرائیل، فلسطین جنگ پر بات کر رہے ہیں۔مولانا نے خیبرپختونخوا کے علاقے لکی مروت میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اللہ نے ہمیں طاقت دی۔ میں واحد شخص تھا جس نے قطر جا کر حماس کے نمائندوں سے بغیر کسی ہچکچاہٹ ملاقات کی۔ ہم نے دنیا کو بتایا کہ ہم یہودیوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ہمیں اس پر افسوس نہیں ہے۔ کیا ہمارے سیاسی مخالفین میں سے کسی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہو؟‘

چھوٹی پارٹیوں کی سیاست

ان تین بڑی جماعتوں کے علاوہ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے کئی چھوٹے بڑے مذہبی گروپ بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود شریعت کے مطابق تعلیم، انصاف اور معاشی نظام کے قیام کے وعدے پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔سلمان غنی کا خیال ہے کہ ان میں سے کسی کے بھی اقتدار میں آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے ووٹ تو کاٹ سکتی ہیں مگر ان میں سے کسی کو بھی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت ملنے کا امکان نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے مذہبی گروہ سیاسی طور پر زیادہ اہم تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ وہ اسی صورت میں حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں جب وہ انتخابات کے بعد کسی اتحاد میں شامل ہوں۔ ورنہ ان کے پاس کوئی موقع نہیں۔‘

جب پاکستان میں لوگوں کے لیے مذہبی شناخت اتنی اہم ہے تو لوگ مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

اس سوال پر سلمان غنی کا کہنا ہے کہ جب ووٹ کی بات آتی ہے تو لوگ ایسے امیدواروں کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں جو ان کے خیال میں پارلیمنٹ تک پہنچ سکیں۔جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے، لوگ ان کا احترام کرتے ہیں لیکن جب یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ جیت نہیں پائیں گے تو وہ دوسری مرکزی دھارے کی جماعتوں کی طرف بڑھتے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے