بلوچستان کے نوابوں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والی ایک ہاری کی بیٹی: ’اگر میں خوف اور ڈر رکھوں گی تو علاقے میں تبدیلی کیسے لاؤں گی؟‘

116.jpg

شانگلہ کی رہائشی ساجدہ بی بی (فرضی نام) نے شناختی کارڈ ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں صرف ایک بار ووٹ ڈالا ہے۔ انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دو سال قبل بلدیاتی انتخابات میں اس وقت ملی جب ان کے شوہر کے دوست کو ووٹ کی ضرورت تھی۔
’دو سال پہلے تک مجھے یہ پتا ہی نہیں تھا کہ ایک عورت ووٹ بھی ڈال سکتی ہے۔‘
وہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے سوات ڈویژن کے ضلع شانگلہ کی رہائشی ہیں۔ ساجدہ بی بی کے مطابق ان کے شوہر نہیں چاہتے کہ گھر کی خواتین پولنگ سٹیشنز پر مردوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ہوں کیونکہ ’اس سے ان کا پردہ ختم ہوگا۔‘
ووٹ ڈالنے کی اس پابندی کا شکار صرف ساجدہ اور ان کے گھر کی دیگر خواتین ہی نہیں، بلکہ اس صورتحال کا سامنا لاکھوں خواتین ووٹرز کو ہے۔
ضلع شانگلہ میں سنہ 2018 کے انتخابات میں خواتین کا ٹرن آؤٹ اتنا کم تھا کہ الیکشن کمیشن نے یہاں انتخابات کالعدم قرار دے دیے تھے۔ یہ ملک کے انتہائی قدامت پسند علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں خواتین کے لیے سخت روایات رائج ہیں جن کی مکمل پابندی کی جاتی ہے۔ شانگلہ کی تاریخ میں بلدیاتی یا کسی بھی الیکشن میں کوئی خاتون امیدوار کھڑی نہیں ہوئی ہیں۔
یہاں کل رجسٹرڈ ووٹرز میں نصف تعداد خواتین کی ہے۔ مگر انھیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ تو دوسری جانب پولنگ کے دن ایسے انتظام بھی نہیں نظر آتے جو ان علاقوں کی خواتین کے لیے مددگار ثابت ہو سکیں۔ ہم اس علاقے میں چند خواتین سے ملے اور سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا گذشتہ چھے برسوں کے دوران کچھ تبدیلی آئی ہے۔
یہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے خاندان کے مردوں کی اجازت چاہیے، جو عام طور پر نہیں دی جاتی۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ ہونا، پولنگ بوتھ علیحدہ نہ بنائے جانے کو یہاں کے مرد وہ وجہ بتاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے