دھمکیوں کے جواب میں امریکہ کو ناقابل فراموش سبق سکھائیں گے، جنرل حسین سلامی

101.jpg

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے مغربی ایشیا میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں ایران کے خلاف امریکی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ تہران واشنگٹن کے ساتھ جنگ ​​نہیں چاہتا لیکن وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہے، ان دنوں میں امریکی حکام کی جانب سے بے بنیاد دھمکیاں سننے کو مل رہی ہیں، کسی دھمکی کا جواب دیئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، جنگ طلب نہیں ہیں، نہ خوف کھاتے ہیں، نہ ڈرتے ہیں، پامردی ہمارا شیوا پے۔ سپاہ پاسداران کے کمانڈر ان چیف کا تہران میں شہدا کی یاد میں منعقد ہونیوالی قومی کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ گفتگو کا آغاز امام راحل، حضرت امام خمینی کو خراج تحسین پیش کرنے سے کرتا ہوں کہ پنتالیس قبل، جن کے بابرکت وجود سے آفتاب انقلاب پوری آب و تاب کیساتھ چمکا، انقلاب اسلامی کے دل تہران پر ظاہر ہوا اور امام راحل نے مسیحانہ کلام، تدبیر احسن، احیائے اسلام کی منطق، انبیا کرام کے جاہ و جلال کیساتھ اسلام کی عظمت و رفعت کو پوری دنیا اور ملت ایران کے سامنے پیش کیا اور نئے سرے سے اسلام کو سرفراز کیا۔
جنرل حسین سلامی نے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی سلامتی، کامیابی اور توفیقات میں اضافے کی آرزو کیساتھ گفتگو کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ امام راحل کی شاندار امامت کے بعد ہماری محبتوں کے محور، رہبر انقلاب اسلامی نے 34 سال سے ہدایت امت کا پرچم تھام رکھا ہے، اس دور کے پیچیدہ ترین اور جان لیوا فتنوں اور خطرات کے کے مقابلے میں شجاعانہ تدبر کے ذریعے امت اسلامی میں مقاومتی مکتب کو پوری روح کیساتھ زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے شہدائے انقلاب کو والہانہ انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی کے والامقام شہدا پر غفران و رحمت و تحیت الہیٰ کیساتھ درود و سلام نچھاور کرتا ہوں، بالخصوص کہکشان کے چمکتے ستاروں کی مانند ان سربلند 24 ہزار شہدا پر ہماری روحیں نثار ہوں۔
انہوں نے رہبر انقلاب اسلامی کی اس کانفرنس کے شرکا سے گفتگو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہدا اور تہران کے متعلق آپ کے ارشادات، یادیں اور ہدایات نہایت جامع، پراثر اور الہام بخش ہیں، ہماری محبتوں کے محور، رہبر انقلاب اسلامی نے بقول تہران واقعی ایک عالمی شہر ہے، تہران دنیا میں سیاست کا طاقتور ترین مرکز ہے، تہران شیطانی و استعماری سیاست کا مدفن ہونے کیساتھ ساتھ انقلاب کا شہر، انقلاب کا دل، مرکز حماسہ ہے، جہان 22 بہمن واقع ہوا، قربانیاں دی گئیں، انقلاب کے نعرے بلند ہوئے، لاتعداد انسانوں نے انقلاب، ایثار، قیام کی تاریخ رقم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دشمن کی آنکھوں کو اپنے نورانیت سے اندھا کر دینے والا، شہر نور و معنیٰ، شکوہ اور عظمت کا حامل تہران ایک منفرد شہر ہے، جس نے ایسے شہدا پیش کیے ہیں جنہیں اہل زمین سے زیادہ اہل آسمان پہچانتے اور جانتے ہیں۔ انہوں نے تہران کے کبھی نہ غروب ہونے والے اور ہمیشہ کے لیے دمکنے والے ستاروں کی تجلیل میں کہا کہ یہ منفرد شہدا کا شہر ہے، یہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا شہر ہے، اصحاب امام حسین علیہ السلام کا شہر ہے، یہ ایسے لشکر کا شہر ہے، جس کے بیشتر سالار اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔
انہوں نے شهید همت، عباس کریمی، حسین همدانی، اسداللهی، کلهر، وزوایی، تهرانی، سپهبد کرمی، صیاد شیرازی، فلاحی، فکوری، ستاری، آبشناسان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہدا نہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے، اسلام نہ ہوتا، نہ ایران ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آج کرہ زمین پر ایران اگر اسلام کی عظمت کا نشان، طاقت ور ملک، بہترین شناخت کیساتھ مظلوموں کے دلوں دھڑکن اور آزادی پسندوں کا محبوب ہے تو ان شہدا کی برکت سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان شہدا کیوجہ سے ایران کیخلاف ہر داخلی اور خارجی جنگ اور فتنہ ناکام ہوا ہے، آج بھی جب تک نور ایمان سے منور صاحبان دل سینہ سپر ہیں، کہ جو شکست کے مقابلے میں اپنی جانیں اور خون دینے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ ملت بھی باقی ہے اور اسلام بھی زندہ ہے۔
شہدا کے خاندانوں کو خطاب کرتے ہوئے جنرل حسین سلامی نے کہا کہ آپ عظمت و سربلندی کی بنیاد اور معراج ہیں، جنت کے ٹکڑوں میں ٹکڑا، بہشت کے دروازوں میں سے دروازہ، ملت کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے ملت کی فتح اور کامیابی کا راستہ کھولا، میں آپ کے ہاتھوں اور قدموں کا بوسہ لیتا ہوں، آپ ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حجت ہیں، جنہوں نے سختیاں جھیلیں، آپ صبرو شکوہ اور قوت کا مظہر ہیں، آپ ملت اور امت اسلامی کا مایہ گرانبہا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہدا ہمارا سرمایہ افتخار ہیں اور ہم مکتب شہادت کو اگلی نسل میں منتقل کرینگے، ہم جنگ طلب نہیں ہیں، لیکن جنگ مسلط کی جائے تو پیچھے ہٹنے والے نہیں، کسی کو اجازت نہیں دینگے کہ کوئی غیر ہماری حدود میں چھیڑ چھاڑ کرے۔
انہوں نے کہا کہ جب امام خمینی نے یہاں قدم رکھا یہ دنیا سیاسی تاریکی اور جہالت کا شکار تھی، ظالموں کے بنائے گورستان میں انسانی اقدار کو فراموش کر کے طویل عرصے سے محو خواب تھی، ہم امریکی سلطنت کا حصہ بن چکے تھے، امام راحل تشریف لائے، ہمیں آزادی اور استقلال کے نور سے سرفراز فرمایا، امام کا انقلاب نور اور آگہی کا انقلاب تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارے انقلاب کا نعرہ کسی ظالم و ستم گر کی غلامی قبول نہ کرنا تھا، پوری دنیا کے ستم گروں نے انقلاب کو محدود اور ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن ناکام رہے، ہماری ملت نے امام راحل کا راستہ انتخاب کیا اور اس پر ڈٹ گئے کہ ایسا نہیں ہونے دینگے کہ باہر سے کوئی یہاں طاقت کا رعب دکھائے، یہ ہمارے شہدا کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، جو نسلوں کے سبق ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہدا نے ثابت کر دیا کہ مسجد کوفہ اور عاشورا کی تاریخ اب نہیں جائیگی، اب تسلسل سے یہی ہو رہا ہے کہ ہماری ملت دشمن کو پے در پے شکست دے رہی ہے۔ آٹھ سالہ دفاع مقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگ ختم ہوئی، ہمارا ملک باقی ہے اور طاقتور ہے، امام راحل کی عظمت و بزرگی کی قدر کرتے ہیں، آپ کی تعلیمات نشان راہ ہیں، ہمارے دشمن اب بھی ہمارے خلاف جنگ اقتصادی، پراکسی وار، جاسوسی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے ہتھکنڈوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اس ملت کے فرزند ہر سال نئی طاقت کیساتھ 22 بہمن کو طاقت کا اظہار کرتے ہیں، تہران کی سڑکوں کو نیا میدان جنگ بناتے ہیں، اس سال کی طرح دشمن کو پیروں تلے روندتے ہیں۔
انہوں نے ایک مضبوط، طاقتور، ترقی یافتہ، ہمیشہ باقی، توانا اور عظیم ایران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں کبھی کبھی امریکی حکام کی جانب سے بے بنیاد دھمکیاں سننے کو ملتی ہیں، انہیں کہتا ہوں، تم نے ہمیں کئی میدانوں میں آزمایا ہے، ہم نے تمہیں کئی میدانوں میں آزمایا ہے، ہم درمیان مشترکہ چیز یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پہنچانتے اور جانتے ہیں، اور تم جانتے ہو کہ ہم کسی بھی دھمکی کو جواب دیئے بغیر نہیں چھوڑتے، لیکن ہم جنگ طلب نہیں ہیں، لیکن نہ ڈرتے ہیں، نہ خوف کھاتے ہیں، ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم شہدا کی قربانی اور مقصد کو نہیں بھولے، ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کا وعدہ اور سنت الہیٰ یہی ہے کہ فلسطین کامیابی اور فتح کے راستے پر ہے، صیہونی زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے، شکست ان کا مقدر ہے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ 24 ہزار تہرانی شہدا کی یاد میں تقریب منعقد کرنیوالوالے عزیزان قابل داد ہیں، انشا اللہ اس سال 22 بہمن کو بھی پرشکوہ انداز میں منائیں گے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے