مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق، خود کش حملے شریعت کے منافی ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل

2598725-islamicideologycouncil-1706710099-600-640x480.jpg

اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل نے قرار دیا ہے کہ مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق ہے اور خود کش حملے شریعت کے منافی ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا 235واں اجلاس منعقد ہوا جس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں متعدد امور زیرِ غور آئے، کچھ عناصر کی طرف سے مسلح اقدامات علمائے کرام اور دینی مدارس کے تمام بورڈز کے متفقہ فتوے/ اعلامیے (پیغامِ پاکستان) کے خلاف ہیں۔

اعلامیے کے مطابق مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق ہے اور خود کش حملے شریعت کے منافی ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے امید ظاہر کی ہے کہ نئے انتخابات کے بعد بننے والی پارلیمنٹ پیغامِ پاکستان کے فتوے اور اعلامیے کو پارلیمانی تائید دلائے گی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان سے اس کے بارے میں مؤثر قانون سازی کے لیے اقدامات کی امید ہے۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں کونسل نے احتجاج کے شرعی طریقے کے متعلق صدر مملکت کے ریفرنس کے حوالےسے ایک تفصیلی ضابطہ اخلاق کی منظوری دی،اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ اپنی حدودِ مملکت میں قرآن وسنت کا نظام نافذ کرے اور کاروبارِ مملکت کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلایا جائے۔

اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ اپنے شہریوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے، شہریوں کے جان ،مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی جائے، شہریوں کے مقدسات اور مذہبی شعائرکو تحفظ فراہم کیا جائے اورانسان کی بنیادی ضروریات (روٹی،کپڑا اور مکان) کی عزت اور سہولت کے ساتھ سستے داموں فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

ریاست پر لازم ہے کہ وہ اپنی پوری توانائی صرف کرکے عوام کے جائز مطالبات پورے کرے، عوام کے مسائل حل اور شکایات کا ازالہ کرے، اگر کوئی حکومت اپنی نااہلی،غیر سنجیدگی اور ناانصافی کی وجہ سے عوام کے جائز مطالبات پورا کرنے اور ان کے حقوق دینے میں ناکام ہو جائے تو وہ دنیاوی اور اُخروی دونوں اعتبار سے مجرم تصور ہوگی اورایسی حکومت کو رعایا کے سامنے احتساب اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب کےلیے پیش ہونا ہوگا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کا ہر وہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے،جو شرعی مفاسد اور اور خرابیوں سے پاک ہو،جو احتجاج بذات خود کسی دوسرے غیرشرعی کام اور حرام امور پر مشتمل ہو، وہ جائز نہیں۔

دوران احتجاج لوگوں کی جانوں کوضائع کرنا، لوگوں کو تکلیف واذیت پہنچانا،نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا جائز نہیں، اس کے علاوہ زبردستی لوگوں کو اپنے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے پر مجبور کرنا ،گالم گلوچ کرنا، مرد وزن کا بے محابا اختلاط بھی جائز نہیں ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ الزام اور بہتان تراشی، جھوٹ، غلط خبریں اور افواہیں پھیلانا، وغیرہ، یہ سب امور ناجائز جبکہ احتجاج کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو ضائع کرنایا ان کو نقصان پہنچانا غیر شرعی ہے۔

اعلامیے کے مطابق سرکاری املاک کسی شخص کی ذاتی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہیں،اگراحتجاج کے دوران کسی شخص کی ملکیت کو نقصان پہنچے تو اس کی تلافی کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر نقصان پہنچانے والا شخص یاگروہ معلوم ہوتو ایسی صورت میں اس نقصان کا تاوان انہی پر لازم ہے۔

اور اگروہ معلوم نہ ہو، تو حکومتِ وقت کی ذمہ دار ی ہےکہ وہ حتی الامکان اس نقصان کی تلافی سرکاری خزانے سے کرے،عوام کی جان، مال اور عزت وآبرو کی حفاطت حکومت کی ذمہ داری ہے۔

احتجاج کے دوران کسی شخص (خواہ وہ سرکاری ملازم ہویا کوئی اور ہو)کو مارنا یا نقصان پہنچانا ہرگزجائز نہیں اور غیر شرعی ہے، ایک مسلمان کی جان، مال اور عزت و آبرواللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے معززگھرخانہ کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔

احتجاج کے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خاص اہتمام کریں اور شرکا کو تلقین کریں کہ وہ پُرتشدُد کارروائیوں اور دہشت گردی سے مکمل اجتناب کریں، اور کسی شخص کی جان کوکسی قسم کا نقصان ہرگزنہ پہنچائیں۔

اگر احتجاج کےشرکا منتظمین کے اختیار اور کنٹرول سے باہر ہوں اور ان کے لیے احتجاج کو پُرامن رکھنا ممکن نہ ہوتو ایسے احتجاج کا انعقاد ہرگزنہ کریں۔

کونسل نے فیض آباد دھرنا کمیشن کے سوالات کے جواب میں قراردیا کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینا نہایت حساس معاملہ ہے،اس پر سخت ترین نتائج مرتب ہوتے ہیں،اس لیےاس میں جلد بازی سے کام لینا ہرگز درست نہیں، اسی طرح کسی شخص کے قول اور فعل کی وجہ سے اسے کافر قرار دینا نہایت ہی احتیاط کا متقاضی ہے،اس کااختیارہر کس وناکس کو دیناشرعی تعلیمات کی خلاف ورزی اور حکمت ومصلحت کے اصولوں کے منافی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق آ ئین و قانون كے مطابق قائم ریاست جہاں باقاعدہ قانون ساز ادارے موجود ہوں اور ایک باقاعدہ عدالتی نظام كام كر رہا ہو، میں فیصلہ كرنا عدالت كا كام ہے،عدالت کسی متعین فرد پر اس كے اقوال و افعال كى بنىاد پر مكمل تفتیىش و تحقیق اور شرعی ثبوت كے بعد كوئى حكم لگا كر سزا جارى كرے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے