اسرائیلی جارحیت جاری، اقوام عالم خاموش تماشائی
سرائیل کی فوج نے عالمی عدالت کے فیصلے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے غزہ کے رہائشی علاقوں پر ایک بار پھر بمباری کردی جس کے نتیجے میں مزید 174 فلسطینی شہید ہوگئے جب کہ 310 زخمی ہوئے ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق رفح میں تیرہ لاکھ سے زائد فلسطینی کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، فلسطینیوں کوگرم لباس، غذا اور ٹینٹوں کی کمی کا سامنا ہے، جب کہ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کو شدید دباؤکا سامنا ہے۔دنیا بھر میں اِس جارحیت کے خلاف مسلسل احتجاج ہو رہا ہے، ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی جاری ہے لیکن اسرائیل کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، بلاشبہ اسرائیل نے انسانی حقوق کے تمام تر قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے غزہ کوکھنڈر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ غزہ میں بھوک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، مقامی آبادی شدید مایوسی کا شکار ہے، قحط زدہ علاقوں میں بیماریاں پھوٹنے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔اسرائیل اب تک ہر حربہ آزما چکا ہے لیکن یرغمالیوں کو رہا نہیں کرا پایا، اسپتالوں کی تلاشی سے لے کر اِن پر بمباری کر کے زخمیوں کو شہید کرنے اور وہاں پناہ لینے والوں پر ظلم ڈھانے کے باوجود اِسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔اس نے اسپتالوں پر بم گرانے کے لیے یہی موقف اپنایا تھا کہ اِن کے تہہ خانوں میں اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں، لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی۔ کوئی حربہ کارگر نہ ہونے پر اب اسرائیل نے بچوں سمیت فلسطینی شہریوں کی تذلیل کا نیا سلسلہ شروع کردیا ہے، اِس کے فوجی گرفتار ہونے والے فلسطینیوں کو جن میں بچے بھی شامل ہیں، سڑک پر نیم برہنہ کر کے قطاروں میں بٹھا دیتے ہیں، اسرائیل اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اسے اپنا حق ِ دفاع گردان رہا ہے اور امریکا سمیت بعض دوسرے ممالک اِس کے ہم آواز ہیں۔سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو امریکا ویٹو کردیتا ہے، آج کے جدید دور میں بھی لگ بھگ ساڑھے تین ماہ گزر جانے کے باوجود تمام مسلم ممالک کے علاوہ چین اور روس جیسے طاقتور ممالک بھی اسرائیل کا راستہ نہیں روک پا رہے، اسے مستقل جنگ بندی پر آمادہ نہیں کر پا رہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی بے بس معلوم ہوتی ہے۔ایک حقیقت اسرائیلی درندگی ہے تو دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے لیے نفرت اور فلسطینیوں کے لیے ہمدردی و محبت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو ممالک اسرائیل اور امریکا سے خوفزدہ ہیں ان کو آزاد ملک ہونے کا نعرہ لگانے کا کوئی حق نہیں ہے، فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے دوران مغربی میڈیا کا دہرا اور منفی کردار دیکھنے میں آیا ہے۔امریکی ٹی وی بھی یکطرفہ رپورٹنگ کر کے پیشہ ورانہ بد دیانتی کا ثبوت دے رہا ہے۔ اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں پر 1948سے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔فلسطین کے امن کو غارت کرنے کے لیے 14/مئی1948کو رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے وجود کا اعلان کردیا گیا، اس کو قبول بھی کرلیا، امریکا نے بھی قبول کیا اور ان کے جو حلیف ممالک تھے۔ان میں بہتوں نے اس کو قبول کرلیا، پھر یہ قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اور وہاں بھی اسے تسلیم کرلیا گیا، لیکن عربوں کو یہ تسلیم نہیں تھا۔اگر بات یہیں پر ختم ہوجاتی تو شاید عرب فلسطینی آنسو بہا کر کچھ سالوں کے بعد خاموش ہو بیٹھتے، لیکن اسرائیلیوں نے اس حد پر اکتفا نہیں، جتنی زمین پر ریاست اسرائیل کو قائم کر کے یہودیوں کے حوالے کیا گیا، انھوں نے اپنی سرحدوں کو وسیع کرنا شروع کر دیا، جس کا خطرہ اردن، مصر اور شام نے محسوس کیا۔لہٰذا ان لوگوں نے اپنی سرحدوں پر فوجیں تعینات کردیں، جس کے نتیجہ میں چھوٹی موٹی جھڑپیں اسرائیل کے ساتھ ہوتی رہتی تھیں، جو1963اور 1973میں بڑی جنگ کی شکل میں نمودار ہوئی، جس کے بعد آپسی مصالحت کے لیے ’’کیمپ ڈیوڈ ایگریمنٹ‘‘ (Camp David Agreement) کے نام سے ہوا، اس ایگریمنٹ کے بعد فلسطین کومزید بے یارو مددگار کر کے چھوڑ دیا گیا، اب فلسطینی یہ سمجھ گئے کہ اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے، خود ہی کرنا ہے، اس کے لیے کئی گروپ وجود میں آئے۔جن میں سے ایک یاسر عرفات کی ’’الفتح‘‘ بھی تھی، ابتدا میں تو اس نے کچھ کام کیا، لیکن بعد میں یہ جماعت بالکل غیر متحرک ہو کر رہ گئی اور13/ستمبر1993 کو اسرائیل اور یاسر عرفات کے درمیان ’’اوسلو‘‘ معاہدہ کے ہونے کے بعد تو وہ امریکی موقف کی حمایت کرنے لگی تھی ، جس کی وجہ سے دوسری تحریک شروع ہوئی، شیخ احمد یاسین نے فلسطینیوں کے سرد پڑتے ہوئے جذبوں کو حوصلہ دیا، ان کو 1987 میں اس وقت عالمی شہرت حاصل ہوئی، جب وہ انتفاضہ اول کے وقت سامنے آئے، اس وقت فلسطینی اسلامی تحریک نے ’’حماس‘‘ کا نام اختیارکیا، ان کا نظریہ یہ تھا کہ اگر ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں توکیا ہوا؟ ہمارے پاس پتھر ہیں، ہم وہی ماریں گے، غلیل ہیں۔ان سے حملہ کریں گے اورپھر زمانہ نے دیکھا کہ ایک طرف اسرائیل کی بکتر بند گاڑیاں ہوتیں اور دوسری طرف لوگوں کے ہاتھ میں پتھر ہوتے اور وہ ان سے بکتر بند گاڑیوں پر حملہ کرتے، اس طریقہ سے ظاہر ہے کہ جدید دور کے ہتھیار سے لیس اسرائیلیوں سے جنگ جیتی نہیں جاسکتی ہے، لیکن دراصل اس کے ذریعہ سے انھوں نے عالمی برادری کو یہ جتلایا اور ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی کہ ہم نہتے لوگ ہیں۔ہمارے پاس کسی قسم کا ہتھیارنہیں ہے، ہم ظالم نہیں ہے، ہم مظلوم ہیں، ہم تو اپنا دفاع بکتربند گاڑیوں کے مقابلہ میں پتھر سے کر رہے ہیں۔ روس، یوکرین جنگ میں بچوں کے قتل عام پر واویلا کرنے والوں کو غزہ نظر نہیں آتا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں اسپتال پر بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے، لیکن عالمی برادری ٹس سے مس نہیں ہوئی، او آئی سی کا کردار بھی افسوسناک ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ اس ظلم و بربریت کا فوری نوٹس لیتی اور پوری امت مسلمہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوتی لیکن افسوس ایسا ابھی تک دکھائی نہیں دے رہا۔ المیہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔مسلم ممالک کو مذمت سے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا جو امریکا، مغربی ممالک اور اسرائیل میں ہلاک ہو صرف وہی انسان ہوتا ہے۔‘‘ اقوام متحدہ اور دنیا کو اپنا دہرا معیار ختم کرنا ہوگا۔ فلسطینی اپنی ہی زمین پر قابض یہودیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔امریکا بھی اپنا بحری جہاز بھیج کر جارحیت کا حصہ بن گیا ہے۔ دنیا کے امن کو برباد کرنے کے لیے ایک نئی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ یہ جنگ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل کر رکھ دے گی۔ میڈیا میں جس طرح کا پروپیگنڈا نظر آ رہا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک کا میڈیا کن خطوط پر کام کر رہا ہے اور حماس جیسی حریت پسند تنظیم کی جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کے لیے کس طرح کی سازشوں کا حصہ بنا ہوا ہے۔کیا یہ ایک انتہائی لچر دلیل نہیں ہے کہ جو فلسطینی قوم کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ظلم و ستم برداشت کر رہی ہے، جس کو اس کی سرزمین سے ہی بے دخل کر دیا گیا ہے اور جو خود اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے تنہا چھوڑ دی گئی ہے کیا اسے مزاحمت کا حق حاصل نہیں ہے؟ اسرائیل کا قیام1948میں ہوا تھا، اس وقت کا رقبہ7,993مربع میل یعنی 12,863 کلومیٹر تھا، جب کہ آج اس کے پاس 13,760مربع میل یعنی 22,145کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔نقشہ کودیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وجود کے وقت اس کا نقشہ کیسا تھا اور آج کیسا ہے؟ یہ رقبہ اسے کہاں سے حاصل ہوا؟ نہتے فلسطینیوں کو در بدر اور بے گھرکر کے، اب خود ہی فیصلہ کیا جائے کہ فلسطینی اپنی زمین کے لیے مزاحمت کریں گے یا نہیں؟ اور اس مزاحمت میں وہ مظلوم ہیں یا ظالم؟اس وقت بھی جو لڑائی چل رہی ہے، وہی زمین کی لڑائی ہے۔اسرائیل نے تو مسلسل فلسطینیوں پر ظلم وستم کی انتہا کر رکھی ہے، اس نے نہتے فلسطینیوں کے خون سے سرزمین فلسطین کو لالہ زارکر رکھا ہے، آج تک عالمی طاقتوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوئی کہ اسرائیل کا مقاطعہ کردیا جائے، اس کے ظلم کے خلاف دو بول، بول کر مظلوم فلسطینیوں کو تسلی دی جائے، آج جب دہائیوں تک ظلم سہنے کے بعد حماس کوکچھ طاقت حاصل ہوئی ہے اور اس نے اسرائیل پر ایساحملہ کیا، جس کی دنیا کو امید نہیں تھی تو سارے منافق ممالک کی آوازیں نکلنے لگیں۔امریکی صدر جوبائیڈن یہ کہہ اٹھے کہ ’’ حماس کے حملوں کا جواب دینا اسرائیل کا حق اور فرض ہے‘‘، سوال یہ ہے کہ یہ حق کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کو کیوں نہیں تھا؟اسرائیل نے فلسطین پر حملے کر کے ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔جو بھی کھلے دل سے سوچے گا، وہ یہی کہے گا کہ اسرائیل کے بجائے فلسطین کو جواب دینے کا پورا پورا حق ہے اور اسی حق کا اس نے اس وقت بھی استعمال کیا ہے اور دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ اب زمانہ وہ نہیں ہے، جس میں دامن بچا کر، کنارے کنارے جاؤ، اس کو لوگ بزدلی سمجھتے ہیں اور دباتے جاتے ہیں، جیسی حالت آج فلسطین کی ہوگئی ہے، اس لیے اب بھنور سے لڑنا پڑے گا اور تند لہروں سے ٹکرانا پڑے گا، خواہ وہ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں؟ تب جا کر تمہیں اپنا حق ملے گا۔