ماہ رنگ کے سر پر ’بلوچی پاگ‘: کیا بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں صوبے میں اپنی ساکھ کھو رہی ہیں؟

28.jpg

ایک نیلے رنگ کی بس کوئٹہ کے جنوبی کنارے ہزار گنجی پر موجود ہے جس کے اردگرد لوگوں کی ایک کثیر تعداد فون اٹھائے اس تاریخی منظر کو فلم بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
کچھ ہی دیر میں یہ مجمع ایک ریلی کی صورت اختیار کرتے ہوئے یونیورسٹی آف بلوچستان کی جانب بڑھنے لگا۔ اس ریلی میں موجود افراد بظاہر خوش نظر آ رہے ہیں۔
یہ کسی فاتح سپورٹس ٹیم کی وطن واپسی پر منایا جانے والا جشن نہیں بلکہ کوئٹہ پہنچنے پر ہزاروں افراد کی جانب سے ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام ہونے والے لانگ مارچ کے استقبال کے مناظر تھے۔
ریلی کے دوران ماہ رنگ بلوچ کے سر پر بلوچی پگڑی (جسے مقامی زبان میں پاگ کہا جاتا ہے) رکھی جاتی ہے۔ بلوچ روایات میں اس پگڑی کو عزت و تکریم کی علامت سمجھا جاتا ہے اور روایتی طور پر یہ قبیلے کے سربراہ کے سر پر سجائی جاتی ہے۔
بلوچستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی خاتون کے سر پر یہ پگڑی رکھی گئی ہو۔ بی بی سی اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔
کچھ ایسی ہی صورتحال بلوچستان کے شہر تربت میں موجود لوگوں کی بھی تھی۔ تربت مکران کا وہ علاقہ ہے جہاں صوبہ بلوچستان کی کئی سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے اپنی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔
اس خطے میں تشکیل پانے والی چند معروف سیاسی و قوم پرست جماعتوں میں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور بلوچستان نیشنل موومنٹ وغیرہ شامل ہیں۔
مقامی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی قریب میں بلوچستان سے ابھرنے والی سماجی تحریکوں (جیسا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی) کو دیکھ کر ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ قوم پرست جماعتیں شاید عوام میں آہستہ آہستہ اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔
اور یہ صورتحال ایک ایسے موقع پر سامنے آ رہی ہے جب بلوچستان میں موجود عسکریت پسند گروہ پہلے ہی عوام کو مرکزی دھارے کی سیاست میں حصہ لینے اور انتخابات سے دور رہنے کی تنبیہ اور دھمکی دے رہے ہیں۔
تُربت سے تعلق رکھنے والے صحافی اسد بلوچ کے مطابق ’یہاں کے لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ماہ رنگ کی تحریک نے مکران اور بلوچستان میں وہ کر دکھایا ہے جو آج تک کسی قوم پرست جماعت نے نہیں کیا۔‘
اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’چاہے سب سے پسماندہ علاقہ آواران ہو یا گوادر، تُربت، پنجگور یا کوئٹہ، اتنی عوام کسی بھی سیاسی یا قوم پرست جماعت کے لیڈر کے لیے نہیں نکلی جتنا کہ ماہ رنگ بلوچ کی آواز پر گھروں سے اپنی مرضی سے نکلی ہے۔‘
اسد نے کہا کہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ قوم پرست جماعتوں سے کسی حد تک مایوس ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے