ہمارے دونوں ہاتھوں کے فنگر پرنٹس منفرد نہیں: مصنوعی ذہانت

a74021b0-b11d-11ee-bc2f-cb5579b90709.jpg

ہم برسوں سے یہ مان کر چل رہے ہیں کہ ایک شخص کے ہاتھ پر ہر فنگر پرنٹ مکمل طور پر منفرد ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر دنیا بھر میں لوگوں کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات پر تصدیق کی جاتی ہے لیکن اب کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق نے اسے چیلنج کیا ہے۔

امریکی یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے 60 ہزار فنگر پرنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے مصنوعی ذہانت کے ایک ٹول کو تربیت دی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کون سے فنگر پرنٹس ایک ہی شخص کے ہیں۔

محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی 75 سے 90 فیصد درستگی کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرسکتی ہے کہ آیا مختلف انگلیوں کے پرنٹ ایک ہی شخص کے ہیں یا نہیں۔ لیکن وہ یہ یقین سے نہیں بتا سکتے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے ایک روبوٹکسٹ پروفیسر ہوڈ لیپسن نے اعتراف کیا کہ ’ہمیں یقینی طور پر نہیں معلوم کہ مصنوعی ذہانت یہ کیسے کرتی ہے۔‘

فرانزک

محققین کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کا آلہ روایتی طریقوں سے مختلف انداز میں فنگر پرنٹس کا تجزیہ کر رہا تھا۔

یہ انگلی کے وسط میں لکیروں کے رخ پر توجہ مرکوز کر رہا تھا نہ کہ اس طریقے پر جس میں انفرادی لکیریں ختم ہوتی ہیں، جسے مینوٹیا کہا جاتا ہے۔

پروفیسر لپسن کا کہنا ہے کہ ’اتنا واضح ہے کہ یہ روایتی مارکرز کا استعمال نہیں کر رہا ہے جو فرانزک کئی دہائیوں سے استعمال کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مرکز میں گردش کے زاویے اور چکر کے زاویے جیسی کسی چیز کا استعمال کر رہا ہے۔‘

پروفیسر لپسن نے کہا کہ وہ اور انڈر گریجویٹ طالب علم گیبے گو دونوں نتائج سے حیران تھے۔

’ہم بہت شکوک و شبہات کا شکار تھے۔۔۔ ہمیں چیک اور ڈبل چیک کرنا پڑا۔‘

یہ بات شاید اس شعبے میں دوسروں کے لیے خبر نہ ہو۔

ہل یونیورسٹی میں فرانزک سائنس کے پروفیسر گراہم ولیمز کا کہنا ہے کہ ’ہم نہیں جانتے کہ فنگر پرنٹس منفرد ہیں۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک ہم جانتے ہیں، ابھی تک کسی دو افراد کے فنگر پرنٹس ایک سے نہیں آئے۔‘

کرائم سین

کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج بائیو میٹرکس اور فرانزک سائنس دونوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر، اگر کرائم سین اے پر ایک نامعلوم انگوٹھے کا نشان پایا جاتا ہے، اور کرائم سین بی پر ایک نامعلوم انگلی کا نشان پایا جاتا ہے، تو فی الحال دونوں کو ایک ہی شخص سے فارنسک طور پر منسلک نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن اے آئی ٹول اس کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کی ٹیم، جن میں سے کسی کا بھی فرانزک پس منظر نہیں ہے، انھوں نے اعتراف کیا کہ اس معاملے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مصنوعی ذہانت کے ٹولز کو عام طور پر بڑی مقدار میں ڈیٹا پر تربیت دی جاتی ہے اور اس ٹیکنالوجی کو مزید ترقی دینے کے لیے بہت سے مزید فنگر پرنٹس کی ضرورت ہوگی۔

مزید برآں ، ماڈل تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے تمام فنگر پرنٹس مکمل پرنٹ اور اچھے معیار کے تھے، جبکہ اکثر حقیقی دنیا میں جزوی یا خراب پرنٹ ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

گو نے دعویٰ کیا کہ ’ہمارا آلہ عدالتی مقدمات میں شواہد کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے لیکن یہ فرانزک تحقیقات میں سراغ پیدا کرنے کے لیے اچھا ہے۔ ‘

تاہم سٹیفورڈ شائر یونیورسٹی میں فرانزک سائنس کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سارہ فیلڈ ہاؤس کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں لگتا کہ اس مرحلے پر اس تحقیق کا فوجداری مقدمات پر کوئی خاص اثر پڑے گا۔

انھوں نے کہا کہ اس بارے میں سوالات موجود ہیں کہ آیا مصنوعی ذہانت کا آلہ جن مارکرز پر توجہ دے رہا تھا وہ ایک جیسے ہی رہے ہیں جو اس بات پر منحصر ہے کہ پرنٹ کی سطح کے ساتھ رابطے میں آنے کے بعد جلد کس طرح مڑ گئی اور یہ بھی کہ آیا وہ روایتی مارکرز کی طرح زندگی بھر ایک جیسے ہی رہے۔

لیکن اس کا جواب دینا مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ محققین اس بارے میں غیر یقینی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کیا کر رہی ہے ، جیسا کہ بہت سے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز کے ساتھ ہوتا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کی اس تحقیق کا جائزہ لیا گیا ہے اور اسے جمعے کے روز سائنس ایڈوانسز نامی جریدے میں شائع کیا جائے گا۔

لیکن چیشائر میں جڑواں بچوں کا ایک جوڑا شاید سب سے آگے ہے۔ ان کی دادی کیرول نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دونوں پوتے پوتیاں اپنی انگلیوں سے ایک دوسرے کے آئی فون کھول سکتے ہیں۔

’انھوں نے مجھے کرسمس کے دن دکھایا، ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب وہ پیدا ہوئے تھے تو وہ ایک جیسے تھے لیکن میں ان کے درمیان فرق بتا سکتی ہوں کیونکہ وہ بڑے ہو چکے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پوتے بھی ہینڈ سیٹ کے چہرے کی شناخت کی خصوصیت کو بائی پاس کرسکتے ہیں۔

پیدائش سے پہلے فنگر پرنٹس بن جاتے ہیں۔ گذشتہ سال شائع ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پیچھے جینیاتی عمل اسی طرح کا ہوسکتا ہے جس طرح زیبرا اور چیتے جیسے جانور اپنے نشانات حاصل کرتے ہیں: یہ نظریہ پہلی بار 1950 کی دہائی میں کوڈ بریکر ایلن ٹورنگ نے پیش کیا تھا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے