متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی سفر : تحقیقی رپورٹ "

336106-1886230305.jpg

11 جون 1978 کو روزنامہ جنگ، کراچی کے ادارتی صفحے پر ایک یک کالمی خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ جامعہ کراچی میں طلبہ کی ایک نئی تنظیم کا قیام عمل میں آیا ہے جس کا نام آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن رکھا گیا ہے۔ بعدازاں یہ تنظیم اپنے نام کے اختصار ’اے پی ایم ایس او‘ سے معروف ہوئی۔

اس تنظیم کے چیئرمین الطاف حسین تھے جبکہ وائس چیئرمین لیاقت علی، جنرل سیکریٹری عظیم احمد طارق، جوائنٹ سیکریٹری عارف اور پروپیگنڈا سیکریٹری حسام الدین مقرر ہوئے تھے۔

اس طرح کی تنظیمیں قائم ہونا عام سی بات ہے اور یونیورسٹیوں میں آئے دن ایسی تنظیمیں بنتی ٹوٹتی رہتی ہیں، اس لیے شاید یہ خبر پڑھنے والوں کے علاوہ چھاپنے والوں کو بھی اندازہ نہ ہو کہ یہ واقعہ آگے چل کر پاکستانی تاریخ پر کتنے گہرے اثرات مرتب کرے گا، اور اس خبر میں مذکور الطاف حسین کا نام اگلے کئی عشروں تک پاکستانی سیاست پر چھایا رہے گا۔

الطاف حسین 17 ستمبر 1953کو کراچی میں آگرہ سے ہجرت کر کے آنے والے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1969 میں میٹرک اور 1971 میں انٹر سائنس کا امتحان پاس کیا۔ وہ انٹر سائنس میں تھے جب انہوں نے لازمی فوجی سروس نیشنل کیڈٹ سروس سکیم میں شمولیت اختیار کی۔ اس سکیم میں تربیت کے دوران ایک حوالدار نے ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا، جس نے انہیں فوج سے بددل کر دیا۔

انہوں نے حوالدار کے رویے کی شکایت صوبیدار میجر سے کی تو بجائے اس کے کہ حوالدار سے پوچھ گچھ ہوتی، الٹا الطاف حسین کو نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی سزا سنا دی گئی۔ الطاف حسین تربیت مکمل کرنے کے بعد واپس شہر میں آ گئے۔

انٹر سائنس کرنے کے بعد الطاف حسین نے بی ایس سی اور پھر جامعہ کراچی سے بی فارمیسی کا امتحان پاس کیا۔ 1977 میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے جلسوں سے خطاب کرنا شروع کیا، ان جلسوں میں وہ ایک شعلہ بیان مقرر کے طور پر سامنے آئے۔

زمانہ طالب علمی کے دوران انہوں نے دیکھا کہ جامعہ کراچی میں طلبہ کی چند ایسی تنظیمیں بھی متحرک ہیں جو علاقائی، صوبائی اور اپنی اپنی قومی شناخت رکھتی تھیں۔ ان تنظیموں کو دیکھتے ہوئے الطاف حسین نے ایسے طلبہ کی ایک تنظیم قائم کرنے کا خیال پیش کیا جو ان تمام تنظیموں سے علیحدہ اپنی قومی شناخت رکھتے تھے۔ یہ وہ طلبہ تھے جن کے والدین ہندوستان سے ترک وطن کر کے پاکستان میں آباد ہوئے تھے۔ الطاف حسین نے انہیں مہاجر کا شناختی نام دیا
14 اگست 1979 کو الطاف حسین نے آفاق شاہد اور حسیب احمد کے ساتھ قائداعظم کے مزار پر ایک مظاہرہ کیا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش میں مقیم محصورین کو پاکستان بلایا جائے۔ ان تینوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔

آہستہ آہستہ اے پی ایم ایس او طلبہ و طالبات میں مقبول ہونا شروع ہوئی اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی اس کے یونٹ قائم ہو گئے۔ تین برس تک یہ تنظیم جامعہ کراچی میں آزادی سے کام کرتی رہی، مگر تین فروری 1981 کو جامعہ کراچی میں ایک تصادم کے بعد اس تنظیم کے سرکردہ ارکان کو تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور وہ اپنے اپنے گھروں تک محدود ہو گئے۔ ان ارکان میں تنظیم کے چیئرمین الطاف حسین بھی شامل تھے۔

فروری 1984 میں جب طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہوئی اور اے پی ایم ایس او کے چیئرمین الطاف حسین، وائس چیئرمین عظیم احمد طارق اور دیگر بانی ارکان اپنی تعلیم مکمل کر چکے تو انہوں نے مہاجروں کے مسائل کے حل اور انہیں متحد و منظم رکھنے کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں 18 مارچ 1984 کو مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں آیا، جو اب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ جماعت کراچی کی مقبول اور منظم ترین سیاسی جماعت بن گئی۔

مہاجر قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو اس تنظیم کا ’قائدِ تحریک‘ قرار دیا گیا۔ عظیم احمد طارق اس تنظیم کے چیئرمین، طارق جاوید سینیئر وائس چیئرمین، زریں ناصر اور سلیم شہزاد وائس چیئرمین، ڈاکٹر عمران فاروق جنرل سیکریٹری، طارق مہاجر ڈپٹی سیکریٹری جنرل، بدر اقبال جوائنٹ سیکریٹری، امین الحق سیکریٹری انفارمیشن اور ایس ایم طارق فنانس سیکریٹری مقرر ہوئے جبکہ شبیر حسین ہاشمی حیدرآباد ڈویژن کی سرگرمیوں کے انچارج نامزد کیے گئے۔

ایک برس بعد کراچی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے ایم کیو ایم کو راتوں رات شہر کی مقبول ترین سیاسی جماعت بنا دیا۔ واقعہ یہ تھا کہ 15 اپریل 1985 کو کراچی میں ناظم آباد چورنگی پر دو تیز رفتار بسوں نے سر سید گرلز کالج کی چند طالبات کو کچل دیا، جن میں سے ایک طالبہ بشریٰ زیدی چل بسیں
اگلے روز چند طالبات نے اپنی ساتھی طالبہ کی موت پر ناظم آباد چورنگی پر چند پلے کارڈ اٹھا کر مظاہرہ کرنا چاہا لیکن اس موقعے پر پولیس نے مظاہرہ کرنے والی طالبات پر گاڑی چڑھا دی، آنسو گیس کے گولے پھینکے اور ان کے کالج میں زبردستی داخل ہو کر وہاں بھی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا مظاہرہ شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں متعدد طالبات زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔

جب یہ طالبات مرہم پٹی کروانے کے لیے عباسی شہید ہسپتال پہنچیں تو وہاں بھی ان کی مڈبھیڑ پولیس سے ہو گئی۔ پولیس کے ساتھ ایک زخمی کانسٹیبل بھی تھا۔ پولیس چاہتی تھی کہ ڈاکٹر طالبات کی بجائے پہلے زخمی کانسٹیبل کی مرہم پٹی کریں۔ اس پر ڈاکٹروں اور پولیس والوں کی تکرار ہوئی۔ پولیس نے اس موقعے پر تدبر سے کام لینے کی بجائے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی پٹائی شروع کر دی اور شعبہ حادثات کے شیشے اور کاؤنٹر توڑ دیے۔

پولیس کے اس رویے کے باعث پورا شہر کراچی آگ اور دھویں کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس حادثے کے بعد پرسکون شہری زندگی آگ، گیس اور گولی کے جہنم میں دھکیل دی گئی۔ پورے شہر کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے، متعدد دکانیں، بینک اور گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ نتیجتاً کراچی کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور متعدد علاقوں میں تاحکم ثانی کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ان ہنگاموں میں نو افراد چل بسے اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

15 اپریل کے ٹریفک حادثے کے بعد تعصبات بھڑکانے کی ایک منظم تحریک شروع ہو گئی۔ چونکہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار پختونوں کے ہاتھ میں ہے اور پولیس میں بھی پختون اور پنجابی افراد کی اکثریت ہے، اس لیے ان ہنگاموں کو مہاجر اور پنجابی پٹھان فسادات کا رنگ دے دیا گیا اور پورا شہر فرقہ واریت اور لسانی فسادات کی زد میں آ گیا۔

1986 میں مارشل لا کے خاتمے کے بعد وزیراعظم محمد خان جونیجو نے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔ پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بےنظیر بھٹو پاکستان واپس لوٹ آئیں اور انہوں نے لاہور اور کراچی میں فقید المثال جلسوں سے خطاب کیا۔ اگلے مرحلے میں سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں جلسہ عام کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔

اس سلسلے میں آٹھ اگست 1986 کو مہاجر قومی موومنٹ نے کراچی میں اپنی قوت اور تنظیم کا پہلا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس دن مہاجر قومی موومنٹ نے نشتر پارک میں ایک عظیم الشان جلسہ عام منعقد کیا۔ اس جلسے کی تیاری کئی دن سے جاری تھی اور شہر بھر میں جابجا استقبالی کیمپ لگے ہوئے تھے۔ جلسے کے دن محسوس ہوتا تھا کہ جیسے شہر کا ہر راستہ نشتر پارک کی طرف جا رہا ہو۔ جلسہ گاہ میں حاضرین بہت بڑی تعداد میں جمع تھے، جن کے نظم و ضبط کا یہ عالم تھا کہ ہلکی بارش کے باوجود جلسہ منظم طور پر جاری رہا۔

اس تاریخی جلسے سے ایم کو ایم کے قائد الطاف حسین نے خطاب کیا۔ ان کے خطاب کے اہم نکات یہ تھے:

مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کیا جائے۔
مہاجروں کو سندھ میں آبادی کے تناسب سے حقوق دیے جائیں اور شہری باشندوں کے ساتھ ملازمتوں میں کیا جانے والا غیر منصفانہ سلوک ختم کیا جائے۔
ہم سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان اور بلوچ کو آپس میں بھائی بنانا چاہتے ہیں لیکن اگر کسی بھی طبقے کے ساتھ ناانصافی کی گئی تو اخوت کے یہ جذبے ختم ہوجائیں گے۔
الطاف حسین نے مزید کہاکہ اب مہاجر متحد ہوگئے ہیں، انہیں اب مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ جو لوگ ہمیں اب تک نظر انداز کرتے رہے ہیں، انہیں اب ہمارا وزن محسوس کرنا ہوگا۔

مہاجر قومی موومنٹ کے اس جلسے کی کامیابی نے پاکستانی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ کراچی کے عوام اس جلسے کی غیر معمولی کامیابی پر مطمئن تھے اور انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب ان کے مسائل حل ہونے کا وقت آگیا ہے۔
1986 میں ہی اکتوبر کے مہینے میں پیش آنے والے ایک اور واقعے نے بھی ایم کیو ایم کی مقبولیت اور ضرورت کا احساس دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہوا یوں کہ آٹھ اگست 1986 کو کراچی میں ایک کامیاب جلسہ کرنے کے بعد مہاجر قومی موومنٹ نے اعلان کیا کہ اس کا دوسرا بڑا جلسہ 31 اکتوبر 1986 کو حیدرآباد میں منعقد کیا جائے گا۔

31 اکتوبر کی صبح ایم کیو ایم کے کارکنان مختلف گاڑیوں میں سوار ہو کر حیدرآباد کی جانب روانہ ہونے لگے۔ اس جلوس کو سہراب گوٹھ کے آگے سے گزرنا تھا، جو پختون آبادی کا اکثریتی علاقہ ہے۔ چونکہ شہر میں پچھلے ڈیڑھ سال میں مہاجروں اور پختونوں میں کئی جھڑپیں ہو چکی تھیں، اس لیے حکومت نے پہلے ہی ایم کیو ایم اور سہراب گوٹھ کے عمائدین کے درمیان ایک معاہدہ کروا دیا تھا۔

مگر اس معاہدے کے باوجود جب یہ پرجوش جلوس سہراب گوٹھ کے آگے سے گزرا تو جلوس کے شرکا نے پرجوش نعرے لگانے شروع کر دیے۔ جب تقریباً 50 بسیں گزر چکیں تو اچانک جلوس پر پتھراؤ شروع ہو گیا۔ یہ پتھراؤ تھوڑی دیر میں دو طرفہ فائرنگ میں تبدیل ہو گیا۔ فائرنگ کا یہ تبادلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور اس فائرنگ کے نتیجے میں آٹھ اموات ہوئیں اور 15 افراد شدید زخمی ہو گئے۔

یہ اطلاع جنگل کی آگ کی طرح کراچی اور حیدرآباد میں پھیل گئی اور یہ دونوں شہر باہمی فسادات اور بے امنی کی لپیٹ میں آ گئے۔ متعدد دکانیں، مکانات، منی بسیں، رکشے اور لکڑی کی ٹالیں جلا دی گئیں، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک معطل کر دیا گیا اور شاہراہوں پر جگہ جگہ آگ کے الاؤ بھڑکا دیے گئے۔

اسی دن دوسرا بڑا تصادم حیدرآباد شہر میں بھی ہوا۔ وہاں ایک جلوس مارکیٹ کے علاقے سے گزرتا ہوا جلسہ گاہ کی طرف جا رہا تھا تو اس پر نامعلوم افراد نے گولی چلا دی، جس کے نتیجے میں جلوس کے تین شرکا زخمی ہو گئے۔ اس پر مشتعل افراد نے ایک کار، ایک درجن سے زیادہ رکشے اور دو ہوٹلوں کو نذر آتش کر دیا۔

آگ اور خون کے اس پس منظر میں اسی دن مہاجر قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پکا قلعہ گراؤنڈ، حیدرآباد میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ جلسے کے بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سہراب گوٹھ کے معززین نے جلوس کے قافلوں پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن انہوں نے اپنا وعدہ ایفا نہیں کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو گرفتار کر کے پھانسی دی جائے اور جان سے جانے والوں کے ورثا کو معاوضہ دیا جائے۔

دو دن بعد یکم نومبر 1986 کو الطاف حسین اور ان کے 10 ساتھیوں کو مجرمانہ سازش، اقدام قتل اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سہراب گوٹھ سے بھی 62 افراد گرفتار کر لیے گئے۔

کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے دو بڑے جلسوں، اسلحے کی نمائش اور قوت کے مظاہرے نے سندھ کی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا اور مہاجر بستیوں میں قیادت سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل کر ایم کیو ایم کی جانب منتقل ہونے لگی۔

30 اکتوبر 1986 کو جب سہراب گوٹھ پر ایم کیو ایم کے جلوس پر فائرنگ اور جوابی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تو پورے کراچی میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ سہراب گوٹھ سے منشیات اور اسلحے کے ذخائر کو ختم کیا جائے۔

کراچی کے شمال میں، جہاں سے سپر ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے، وہاں سہراب گوٹھ نامی ایک بستی ہے۔ سپر ہائی وے کے افتتاح کے بعد یہاں اس وقت کے صوبہ سرحد کے باشندوں نے ایک ایسی مارکیٹ کی بنیاد رکھی جہاں سمگل شدہ سامان اور کپڑا فراوانی سے فروخت ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہاں منشیات اور اسلحے کی ایک بڑی مارکیٹ بھی وجود میں آ گئی، جہاں سے یہ چیزیں پورے کراچی کو فراہم کی جانے لگیں۔

12 دسمبر 1986 کو علی الصبح فوج نے پولیس کی مدد سے سہراب گوٹھ کا محاصرہ کر لیا اور گھر گھر تلاشی لی۔ اس کارروائی کو ’آپریشن کلین اپ‘ کا نام دیا گیا، مگر اس تلاشی کے دوران سوائے اکا دکا اسلحہ اور منشیات کے، کچھ بھی برآمد نہ ہو سکا۔

بعد میں اطراف کی بستیوں کے مکینوں نے بتایا کہ آپریشن سے ایک روز قبل اس علاقے میں غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آئی اور 40، 50 ٹرکوں میں بہت سا سامان بھر کر محفوظ علاقوں میں پہنچا دیا گیا۔ عالمی نشریاتی اداروں نے بتایا کہ ملزمان کو آپریشن کلین اپ کی اطلاع پہلے سے مل گئی تھی اور انہوں نے اپنا اسلحہ اور منشیات کا ذخیرہ کہیں اور منتقل کر دیا تھا۔

بہرحال فوج اور پولیس نے اپنی کارروائی جاری رکھی اور چند دنوں میں سہراب گوٹھ کی پوری بستی کو بلڈوزروں کی مدد سے اکھاڑ پھینکا۔

آپریشن کلین اپ کے آغاز کے تیسرے دن 14 دسمبر 1986 کو دو ہزار سے زائد شرپسندوں نے، جو جدید ترین اسلحے سے لیس تھے، کراچی کی ایک بستی علی گڑھ کالونی پر حملہ کر دیا، جہاں انہوں نے گھروں کو آگ لگا دی، گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا، معصوم بچوں کو آگ کے شعلوں میں پھینک دیا، اندھا دھند فائرنگ کی، آتش گیر بم پھینکے اور درندگی کا پورا اور بھرپور مظاہرہ کیا۔ پولیس چھ سات گھنٹے بعد متاثرہ علاقے میں پہنچی اور اس پورے عرصے میں یہ علاقہ درندوں اور وحشیوں کے رحم و کرم پر رہا۔

علی گڑھ کالونی کے سانحے کا ردعمل پورے شہر میں ہوا۔ شہر کے ایک بڑے حصے میں خونریز فسادات پھوٹ پڑے۔ بھائی بھائی کا خون بےدردی اور بے رحمی کے ساتھ بہا رہا تھا، گھروں، بسوں، ویگنوں اور ٹرانسپورٹ گاڑیوں کو نذر آتش کیا جا رہا تھا۔

ان فسادات میں، جو پاکستان کے تاریخ کے بدترین نسلی فسادات تھے، مجموعی طور پر 382 اموات ہوئیں اور 1840 افراد زخمی ہوئے جبکہ نذر آتش کی جانے والی دکانوں، مکانوں اور گاڑیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔

ان فسادات کے بعد الطاف حسین اور ان کی سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ کراچی اور حیدرآباد کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ نومبر 1987 میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر قومی موومنٹ نے تمام بڑی اور ملک گیر سیاسی جماعتوں کا صفایا کر دیا۔ یہ کسی بھی سطح کے انتخابات میں اس جماعت کی پہلی نمایاں کامیابی تھی۔

اس کامیابی کے بعد جنوری 1988 میں مہاجر قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار اور آفتاب شیخ کراچی اور حیدرآباد کے میئر منتخب ہو گئے۔ ان دنوں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین قید میں تھے، چنانچہ حکومت کو ان کے خلاف تمام مقدمات واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
سات جنوری 1988 کو الطاف حسین کی رہائی کی خبر ملتے ہی ہزاروں افراد جیل کے دروازے پر پہنچ گئے، کچھ افراد جذباتی ہو کر جیل کی دیوار کو دھکا دینے لگے اور یوں کچھ ہی دیر میں جیل کی چار دیواری ٹوٹ گئی۔ الطاف حسین جب جیل سے رہا کیے گئے تو ہزاروں افراد نے ان کا استقبال کیا اور انہیں ایک جلوس کی شکل میں ان کی قیام گاہ ’نائن زیرو‘ پہنچایا گیا۔

اسی برس نومبر کے مہینے میں پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے، جس میں مہاجر قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور وہ نہ صرف ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی بلکہ اس نے ’کنگ میکر‘ کی پوزیشن بھی حاصل کر لی۔

ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی مگر اس کے پاس حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت نہیں تھی، نتیجتاً اسے مہاجر قومی موومنٹ کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان سے مذاکرات کرنے پڑے۔

21 نومبر 1988 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو بھی الطاف حسین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر عزیز آباد جا پہنچیں۔

ایم کیو ایم نے محترمہ بےنظیر بھٹو کے سامنے اپنا 45 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔ اب دونوں پارٹیوں کے درمیان مذاکرات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی مذاکراتی ٹیم میں پی کے شاہانی، مسرور سبزواری اور اجمل دہلوی شامل تھے جبکہ ایم کیو ایم کی نمائندگی ڈاکٹر عمران فاروق، امین الحق اور محمد یوسف ایڈووکیٹ نے کی۔

ابتدا ہی سے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کو کوئی خاص اہمیت دینے پر آمادہ نہ تھی، اس نے مذاکراتی ٹیم میں بھی کسی اہم یا منتخب فرد کو شامل نہیں کیا۔ انہوں نے مذاکرات کو بھی بلاوجہ طول دیا، صاف محسوس ہوتا تھا کہ وہ صرف وقت گزارنا چاہتے ہیں تاکہ اس دوران صدر کی جانب سے بےنظیر بھٹو کی بطور وزیراعظم نامزدگی کا اعلان آ جائے اور ایم کیو ایم کی پوزیشن نسبتاً کمزور ہو جائے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم تھی، جو قومی سیاست کے میدان میں بالکل نووارد تھی اور اس کی مرکزی قیادت اور مذاکراتی ٹیم سبھی نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے اپنے بنیادی نکات پر اصرار نہیں کیا اور نہ صرف علیحدہ قومیت، نئی مردم شماری، محصورین کی واپسی اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے جیسے مطالبات کو مؤخر کر دیا بلکہ صوبے کی وزارت اعلیٰ، گورنری اور مرکزی وزارتوں کے حصول پر بھی اصرار نہیں کیا۔

حد تو یہ ہے کہ اس نے صوبائی وزارتوں میں اپنے حصے کا معاملہ بھی بےنظیر بھٹو کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے جن مطالبات کو مانا، انہیں تحریر کرنے میں بھی ایسی زبان استعمال کی گئی کہ ان کے پورا نہ ہونے پر اس کی کوئی گرفت نہ کی جا سکے۔ اہم معاملات کو کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا اور کمیٹیوں کی تشکیل کا معاملہ بھی اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ یہ دو طرفہ نہیں بلکہ یک طرفہ معاہدہ تھا۔

چند ہی ماہ بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ ستمبر 1989 میں اسلامی جمہوریہ اتحاد نے خاموشی سے مہاجر قومی موومنٹ کے ساتھ ایک تحریری معاہدے پر دستخط کیے، جس کے بعد انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیابی حاصل ہو گئی مگر یہ تحریک منظور نہ ہو سکی اور صرف 12 ووٹوں کی کمی سے ناکامی سے دوچار ہو گئی۔ اب مہاجر قومی موومنٹ سیاسی میدان میں کسی حد تک تنہا ہو گئی۔

جنوری 1990 میں کراچی میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا، جس کی میزبان مہاجر قومی موومنٹ تھی۔ یہ کراچی میں منعقد ہونے والا غالباً سب سے بڑا سیاسی اجتماع تھا۔ اسی برس اگست 1990 میں بےنظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور 24 اکتوبر 1990 کو ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے، ان انتخابات میں بھی مہاجر قومی موومنٹ نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔

اسی دوران کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر قومی موومنٹ کی کچھ ایسی سرگرمیوں کا بھی علم ہوا، جس نے کراچی میں بےامنی میں اضافہ کیا۔ مخالفین کا قتل اور بھتہ خوری کی شکایتیں عام ہونے لگی۔ 1991 میں مہاجر قومی موومنٹ کے کچھ افراد لاہور منتقل ہو گئے، جن کی قیادت بدر اقبال، آفاق احمد اور عامر خان کر رہے تھے۔

یہ افراد متعدد امور پر مہاجر قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واضح اختلاف رکھتے تھے اور کراچی میں قیام کی صورت میں انہیں اپنی جان کو خطرات لاحق تھے۔ ہر چند کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کی پوزیشن اپنی جگہ مستحکم تھی اور وہ ناقابل شکست تنظیم نظر آتی تھی مگر اس تنظیم میں یہ پہلی دراڑ تھی۔

اس کے بعد دیگر تین سینیئر ارکان نعیم اختر، یونس خان اور اقبال قریشی بھی منحرفین کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ ایسے میں ایم کیو ایم کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقریباً 40 ارکان نے لاہور میں ایک عظیم الشان پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے الطاف حسین کے ساتھ اپنی وابستگی اور وفاداری کا غیر مشروط طور پر اعلان کیا۔

اس پریس کانفرنس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، سید محمد اسلم، امین الحق، کنور خالد یونس اور دیگر متعدد رہنماؤں نے شرکت کی، مگر اخباری رپورٹوں کے مطابق اس پریس کانفرنس سے یہ تاثر مستحکم ہوا کہ اس سیاسی جماعت میں ارکان اسمبلی تک کی اپنی کوئی شناخت یا پہچان نہیں ہے اور یہ جماعت محض ایک شخصیت کے گرد گھوم رہی ہے۔

اس پریس کانفرنس کا ایک مقصد یہ پیغام دینا بھی تھا کہ اب ایم کیو ایم سندھ سے نکل کر پنجاب میں بھی پہنچ چکی ہے، مگر لاہور کے صحافیوں کے تند و تیز سوالات کے نتیجے میں یہ پیغام بھی بھرپور طریقے سے نہیں پہنچ سکا۔

یکم جنوری 1992 کو مہاجر قومی موومنٹ کے قائد تحریک الطاف حسین عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے اور پھر وہاں سے 28 جنوری 1992 کو اپنے علاج کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دی۔ ان کی یہ درخواست ایک طویل قانونی کارروائی کے بعد 2001 میں منظور کر لی گئی۔ تب سے لے کر اب تک الطاف حسین لندن میں ہی قیام پذیر ہیں۔

مئی 1992 میں سندھ میں ایک فوجی آپریشن کا آغاز ہوا جسے آپریشن ’بلیو سٹار‘ کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد پورے صوبے میں امن کے قیام کو یقینی بنانا تھا۔ یہ آپریشن رینجرز اور مہران فورسز کے ذریعے کیا گیا جسے فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔

ابتدا میں یہ آپریشن اندرون سندھ کے علاقوں تک محدود رہا، مگر 19 جون 1992 کو اس فوجی آپریشن نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ اس دن مبینہ طور پر فوج اور رینجرز کی سرپرستی میں ایم کیو ایم کے ایک مخالف دھڑے نے، جو ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے معروف ہوا، علی الصبح کراچی کے ایک بڑے علاقے میں ایم کیو ایم (الطاف گروپ) کے دفاتر پر جبراً قبضہ کر لیا اور وہاں الطاف حسین کی تصاویر اتار کر ان کے خلاف بینرز آویزاں کر دیے۔
اس دوران دو طرفہ فائرنگ سے آٹھ افراد چل بسے اور 25 زخمی ہو گئے۔ کراچی کے سات علاقوں میں کرفیو لگا دیا گیا اور ایم کیو ایم (الطاف گروپ) کی قیادت اور کارکنان روپوش ہو گئے۔

اس قبضے کے بعد ایم کیو ایم حقیقی کے رہنما عامر خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ہم نے کراچی کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا ہے، ایم کیو ایم کے عقوبت خانوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور گلیوں میں نصب آہنی دروازے ختم کر دیے ہیں۔‘

21 جون 1992 کو عزیز آباد میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفاتر نائن زیرو کو رینجرز اور پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اخبار نویسوں کو لائنز ایریا میں ایم کیو ایم کے مبینہ عقوبت خانے کا دورہ کروایا۔
22 جون 1992 کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’کراچی کے عوام ایم کیو ایم کے مظالم، دھونس، ایذا رسانی، محاصرے اور دہشت گردی سے تنگ آ چکے تھے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ فوج ایم کیو ایم کو کچل رہی ہے، ہم صرف امن بحال کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کی رِٹ قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘ یہ سلسلہ اگلے کئی روز تک جاری رہا۔

اُدھر لندن میں مقیم الطاف حسین وزیراعظم اور صدر مملکت سے مسلسل اپنی تنظیم کے خلاف فوجی کارروائی کے خلاف اپیلیں کرتے رہے۔ جب وزیراعظم اور صدر مملکت نے ان اپیلوں پر کوئی کارروائی نہیں کی تو الطاف حسین کی ہدایت پر سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے بیشتر ارکان نے اپنے استعفے متعلقہ سپیکر صاحبان کو پیش کر دیے جبکہ چند ارکان نے ایم کیو ایم حقیقی میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کر دیا۔

اسی آپریشن کے دوران مہاجر قومی موومنٹ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ اس کے قائد الطاف حسین کراچی کو ہانگ کانگ کی طرز پر ’جناح پور‘ یا ’اردو دیش‘ کے نام سے ایک الگ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ 19 جولائی 1992 کو پاکستانی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر آصف ہارون نے ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ ایم کیو ایم کے خلاف جاری حالیہ آپریشن کے دوران ایسے بعض نقشے اور دستاویزات بھی برآمد ہوئی ہیں جن سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔

تاہم الطاف حسین نے اس الزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ہم نے علیحدہ ریاست بنانے کی کبھی کوئی بات نہیں کی، ہم نے ہمیشہ پاکستان کی بات کی ہے۔ یہ الزام ہمیشہ الزام ہی رہا اور اسے کبھی ثابت نہ کیا جا سکا۔ اگست 2009 میں انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد نے اعتراف کیا کہ جناح پور کے نقشے ایم کیو ایم کے دفاتر سے برآمد نہیں ہوئے تھے بلکہ انہیں خود حکومت نے تیار کروایا تھا۔

اس آپریشن کے دوران مہاجر قومی موومنٹ کے تمام مرکزی رہنما روپوش ہو گئے تھے۔ نومبر 1992 کو تنظیم کے چیئرمین عظیم احمد طارق منظرعام پر آئے، جنہوں نے کہا کہ ’مجھے ہر طرف خون نظر آ رہا ہے، مگر میں مہاجر عوام کے مستقبل اور کراچی کو خون خرابے سے بچانے کے لیے منظرعام پر آ گیا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ گولی اور گالی کی سیاست کو خیرباد کہہ کر کسی طریقے سے پارٹی کو بچا لوں۔‘

ابتدا میں مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے قائد آفاق احمد نے انہیں اپنے دھڑے کی قیادت سنبھالنے کی پیش کش کی مگر عظیم احمد طارق نے یہ پیش کش منظور نہیں کی۔ انہوں نے گورنر سندھ، صدر پاکستان اور سندھ کے کور کمانڈر سے ملاقاتیں کیں اور آہستہ آہستہ اپنے علیحدہ گروپ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔

یکم مئی 1993 کو نامعلوم افراد نے انہیں قتل کر دیا، چند دن بعد طارق جاوید کو ایم کیو ایم کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ اکتوبر 1993 میں ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ مہاجر قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جبکہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اس نے 27 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں بےنظیر بھٹو دوبارہ ملک کی وزیراعظم بن گئیں۔

بےنظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی کراچی سے بے امنی کے خاتمے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد کراچی سے جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کا سلسلہ شروع ہو گیا، مگر جرائم پیشہ افراد بھی کچھ کم نہ تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی قتل و غارت گری کے ایک لامتناہی سلسلے کی لپیٹ میں آ گیا۔

ایک جانب اس آپریشن کے ذمہ داران مارے جانے لگے، دوسری جانب مہاجر قومی موومنٹ کے مبینہ دہشت گرد ماورائے عدالت پولیس مقابلوں کے نتیجے میں قتل کیے جانے لگے۔ اس کی ابتدا دو اگست 1995 کو فاروق دادا اور اس کے ساتھیوں کے قتل سے ہوا۔ بعد میں اس نوع کے اور بھی متعدد واقعات ہوئے جن میں کئی اور مبینہ دہشت گرد پولیس مقابلے میں جان کی بازی ہار گئے۔ ان مرنے والوں میں فہیم کمانڈو، اظہر موہانی، طارق تیمور، ذیشان حیدر عرف رضوان، مفیض فاروقی اور نعیم شری کے نام سرفہرست تھے۔

26 جولائی 1997 کو ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینئر سینیٹر اشتیاق اظہر نے ایک پریس کانفرنس میں مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ مہاجروں سمیت تمام مظلوموں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ملک کو صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بنانا چاہتی ہے اور ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جس سے تمام طبقات کے عوام اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔

چند روز بعد کراچی میں عزیز آباد کے علاقے میں واقع جناح گراؤنڈ میں ایم کیو ایم کا ایک بڑا جلسہ عام منعقد ہوا، جس سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کیا اور متحدہ قومی موومنٹ کے قیام اور اس کے منشور کا باضابطہ اعلان کیا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ زبان، نسل، علاقے، قومیت، مذہب، ثقافت یا عقیدے کی بنیاد پر کسی طبقے کو ناانصافی کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔ سندھی، پنجابی، کشمیری، بلوچی، پختون، مہاجر، سرائیکی، بروہی، مکرانی اور دیگر تمام قومیتوں، برادریوں، لسانی اور ثقافتی اور مذہبی اکائیوں کے جائز حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے سب کے ساتھ انصاف کو اپنا نصب العین بنائے گی۔

الطاف حسین کے مطابق ان کی جماعت ملک میں ایسا جمہوری نظام قائم کرنا چاہے گی جس میں تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کے لیے اسمبلیوں کی رکنیت کا معیار دولت و جاگیر نہیں بلکہ اہلیت و صلاحیت ہو گا، تعلیم کے دہرے نظام کو ختم کر کے ایسا انتظام کیا جائے گا کہ امرا کے ساتھ ساتھ غربا کے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مساوی حقوق حاصل ہو سکیں، خواتین کو برابر کا شہری اور مساوی حقوق کا مستحق قرار دیا جائے، مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی جرأت آمیز جدوجہد کی جائے اور ہر قسم کی مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ہر فرد کو اس کے عقائد پر چلنے کی مکمل آزادی دلائی جائے گی، ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے گا اور انسانی حقوق کے مکمل احترام کی ضمانت مہیا کی جائے گی۔

2002 کے عام انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے بھرپور حصہ لیا اور 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں بھی کراچی اور حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے حمایت یافتہ نمائندے بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے جس کے بعد مصطفیٰ کمال کراچی کے سٹی ناظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے کراچی میں بہت سے تعمیراتی کام کروائے۔ وہ اپنے اس عہدے پر 17 فروری 2010 تک فائز رہے۔

قومی اسمبلی کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی کامیابیوں کا تسلسل 2008 میں بھی قائم رکھا اور قومی اسمبلی کی 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2013 میں یہ تنظیم مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 24 نشستیں لینے میں کامیاب رہی۔ ان انتخابات میں کراچی سے تحریک انصاف نے کامیابی تو محض ایک نشست پر حاصل کی، جس میں موجودہ صدر پاکستان عارف علوی منتخب ہوئے تھے۔ انہیں ملنے والے ووٹوں کی تعداد کئی لاکھ تھی۔

یہ صورت حال ایک الارمنگ صورت حال تھی۔ الطاف حسین اس صورت حال پر بڑے ناراض ہوئے اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے انتخابات کے بعد عزیز آباد میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں اپنے سرکردہ رہنماؤں کو بہت برا بھلا کہا۔ انہوں نے متحدہ کی کراچی تنظیمی کمیٹی اور پاکستان اور لندن کی رابطہ کمیٹی بھی تحلیل کر دی، بعدازاں انہوں نے متحدہ کی 26 رکنی رابطہ کمیٹی کے ناموں کا اعلان کر دیا۔

تین برس بعد متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست میں اس وقت ایک تبدیلی آئی جب تین مارچ 2016 کو کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال ایک عرصے تک سیاسی منظر سے اوجھل رہنے کے بعد اچانک پاکستان واپس پہنچ گئے۔ انہوں نے آتے ہی انیس قائم خانی کے ہمراہ ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ایم کیو ایم سے اپنی علیحدگی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے متحدہ کے قائد الطاف حسین پر سنگین الزامات عائد کیے۔

مصطفیٰ کمال کی یہ پریس کانفرنس لگ بھگ دو گھنٹے جاری رہی جس میں انہوں نے متحدہ کے قائد کے لیے ’الطاف بھائی‘ کے بجائے ’الطاف صاحب‘ کا خطاب استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی اور سب سے منظم سیاسی جماعت تھی لیکن الطاف حسین نے اسے تباہ کر دیا۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ متحدہ کے تمام رہنما اس بات سے بخوبی باخبر تھے کہ پارٹی کو انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ سے فنڈز ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ الطاف حسین کو مہاجروں کی کوئی پروا نہیں اور انہوں نے اردو بولنے والوں کی دو نسلوں کو تباہ کر دیا ہے۔

اپنی پریس کانفرنس کے دوران مصطفیٰ کمال آبدیدہ بھی ہو گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب بھی متحدہ حکومت کا حصہ بنی، اس کی حالت میں بہتری ہونے کے بجائے خرابی ہوتی چلی گئی لیکن الطاف حسین نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ الطاف حسین پارٹی ورکرز سے کراچی رابطہ کمیٹی کے ارکان کی اس طرح تذلیل کرواتے ہیں کہ پارٹی ورکر انہیں جوتیاں تک مارتے ہیں۔

مصطفیٰ کمال نائن زیرو سے اس زمانے میں ٹیلی فون آپریٹر کی حیثیت سے منسلک ہوئے تھے جب الطاف حسین خود وہاں بیٹھا کرتے تھے اور پھر ایک دن پارٹی نے انہیں ٹیلی فون آپریٹر سے ایک سیاسی کارکن بنا دیا۔ وہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن جیت کر سندھ اسمبلی جا پہنچے۔ بعد ازاں سٹی ناظم بنے اور سینیٹر بھی رہے۔ اس حیثیت میں چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن استعفیٰ دے کر اچانک دبئی چلے گئے اور ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ وطن واپس آگئے۔

23 مارچ 2016 کو مصطفیٰ کمال نے اپنی نئی سیاسی جماعت کا نام ’پاک سر زمین پارٹی‘ رکھنے اور پاکستان کے قومی پرچم کو اپنی جماعت کے پرچم کے طور پر اپنانے کا اعلان کر دیا، تاہم مصطفیٰ کمال کی اس سیاسی جماعت کو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔

پانچ ماہ بعد 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر’کارکنوں کی گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل‘ کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں سے اپنے خطاب میں پارٹی کے قائد الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے۔

انہوں نے پاکستان کو پوری دنیا کے لیے ’ناسور‘ اور ’عذاب‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان دہشت گردی کا مرکز‘ ہے اور اس کا ’خاتمہ عین عبادت‘ ہے۔ اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے کارکنوں کو مختلف ٹی وی چینلز پر دھاوا بولنے کی ہدایات دیں۔

یہ حکم ملنے پر بہت سے کارکن مشتعل ہو گئے اور انہوں نے کیمپ سے نکل کر اے آر وائی نیوز اور سما نیوز کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران ایک شخص چل بسا اور 15 زخمی ہوئے تھے۔

اس تقریر کے بعد الطاف حسین نے امریکہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب کے دوران بھی پاکستان مخالف باتیں کیں اور کہا کہ اگر امریکہ اور اسرائیل ساتھ دیں تو داعش، القاعدہ اور طالبان پیدا کرنے والی آئی ایس آئی (داعش) اور پاکستانی فوج سے لڑنے کے لیے وہ خود جائیں گے۔

ان تقاریر کے بعد ملک بھر میں الطاف حسین کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے انہیں اور متحدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ’غدار‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔

پولیس اور رینجرز نے کراچی میں واقع متحدہ کے مرکز نائن زیرو کو سیل کر دیا اور ڈاکٹر فاروق ستار سمیت متحدہ کے بہت سے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔
24 اگست کو متحدہ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ الطاف حسین کے بیانات سے اعلان لاتعلقی اور ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان پر ندامت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان میں رجسٹرڈ ہے، اس لیے اب اسے پاکستان سے ہی چلایا جائے گا، جس کے فیصلے اب وہ خود کریں گے اور ایم کیو ایم یہاں پاکستان سے ہی آپریٹ کرے گی۔

فاروق ستار کے ساتھ خالد مقبول صدیقی، ارشد وہرہ، نسرین جلیل، خواجہ اظہار الحسن، آصف حسنین، شیخ صلاح الدین، اقبال محمد علی اور دیگر ایم کیو ایم رہنما بھی پریس کلب میں موجود تھے۔

اس واقعے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، ایک دھڑا جس کی قیادت الطاف حسین کر رہے ہیں، متحدہ قومی موومنٹ لندن کہلانے لگا جبکہ دوسرا دھڑا جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس تھی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے نام سے موسوم ہوا۔

اس واقعے کے دو دن بعد 24 اگست 2016 کو متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار وسیم اختر کراچی کے میئر منتخب ہوگئے، تاہم وہ اپنے پورے دور حکومت میں اختیارات نہ ملنے کا رونا روتے رہے۔

2018 کے عام انتخابات میں پاک سر زمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے دو دھڑے ایک دوسرے کے مدمقابل آئے مگر پاک سر زمین پارٹی ایک نشست بھی حاصل نہ کرسکی جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)، جس کی قیادت خالد مقبول کر رہے تھے، کے حصے میں فقط سات نشستیں آئیں۔

ابتدا میں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ان ارکان نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا مگر 2022 میں جب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو انہوں نے اپنا وزن تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا۔

2024 کے عام انتخابات میں پاک سر زمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے دونوں دھڑے ایک ساتھ مل کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس وقت ان کی قیادت خالد مقبول صدیقی کے پاس ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے