غزہ میں جنگ کا چوتھا مہینہ اور بلنکن کا چوتھا دورہ مشرق وسطیٰ

336136-368301842.jpg

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا چوتھا مہینہ چل رہا ہے جب کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا اس دوران اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کا چوتھا دورہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔

ان کا دورہ امریکی و اسرائیلی اہداف کے حوالے سے ان کے بقول ’بہت کامیاب رہا۔‘ اس کامیابی کا اظہار انہوں نے قاہرہ میں اپنی اختتامی نیوز کانفرنس میں کیا۔

جارحیت کے آغاز میں 11 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے ان کے دورے کے دوران مشرق وسطیٰ کے شراکت دار (یقیناً مراد عرب ممالک ہیں) جن موضوعات پر بات کرنے سے ہچکچاتے تھے، اب وہ ان موضوعات پر بات کرنے پر آمادہ ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کو چوتھے دورے میں ایک کامیابی یہ بھی ملی کہ غزہ پر جارحیت کو امریکی و اسرائیلی ضرورت و حکمت عملی کے مطابق غزہ کے اندر تک محدود رکھنے اور اسرائیل کے لڑتے رہنے سے کم از کم امریکہ کو خطے سے کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں ہے۔

اس کا مطلب صاف ہے کہ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت میں کمی نہیں آئے گی اور نہ ہی امریکی اسلحے کی فراہمی پر کوئی اثرات مرتب ہوں گے۔

اس لیے اسرائیل کے لیے امریکی مدد و حمایت غیر مشروط اور بلا تعطل حتمی اہداف کے حصول تک آئندہ بھی جاری رکھی جا سکے گی۔

وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کے اس چوتھے دورے اور پہلے دورے کے اہداف کو اگر ذہن میں تازہ کر لیا جائے تو مزید آسانی ہو گی کہ اس سارے دورے اور اس کے مستقبل پر اثرات کو سمجھا جا سکے۔

سات اکتوبر کو شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے چوتھے روز بلنکن کا اسرائیل کا پہلا دورہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ 11 اکتوبر 2023 کو امریکہ سے روانہ ہوئے اور ان کے دورے کے مقاصد کے بارے میں ’روئٹر‘ نے امریکی دفتر خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا، جس کے مطابق اس دورے کا مقصد غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خطرے کو روکنا تھا۔

واشنگٹن کے مشرق وسطیٰ کے قریب ترین اتحادی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بلنکن کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو سمیت اعلیٰ اسرائیلی حکام سے ملاقات کرنی تھی تاکہ فوجی حمایت کو مزید بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

خود بلنکن نے اپنے پہلے دورے کے مقاصد کو صرف ایک جملے میں بڑی خوبصورتی سے سمویا تھا۔ ’میں ایک سادہ اور واضح پیغام کے ساتھ مشرق وسطیٰ جا رہا ہوں کہ امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے۔‘

ان کے اس اعلان کو امریکہ نے متواتر نبھایا۔ پہلے دورہ اسرائیل سے قبل غزہ میں فلسطینیوں کی اموات دو ہزار کے قریب تھیں اور تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات آ رہی تھیں۔

اب جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے 11 جنوری 2024 کو اپنا چوتھا دورہ مکمل کر کے واپس امریکہ کا رستہ لیا تو غزہ میں فلسطینیوں کی کم از کم اموات 23 ہزار 350 ہو چکی تھیں جبکہ بےگھر فلسطینیوں کی تعداد 20 لاکھ سے کہیں زیادہ ہو چکی تھی۔

مگر اس سارے عرصے میں اسرائیل کے لیے امریکی امداد میں مسلسل اضافہ کیا گیا، کمی نہ کی گئی۔ حتیٰ کہ بائیڈن انتظامیہ نے ایک سے زائد بار کانگریس سے بالا بالا اسرائیل کے لیے فوری و ہنگامی بنیادوں پر جنگی اسلحہ بھجوانے کی منظوری دی۔

اب چار جنوری 2024 سے شروع ہونے والے دورہ مشرق وسطیٰ کا 11 جنوری 2024 کو اختتام ہوا تو اختتامی مرحلے پر بلنکن نے قاہرہ میں نیوز کانفرنس کی اور تازہ دورہ مشرق وسطیٰ کا پچھلے دوروں سے تقابل بھی کیا اور اس کے اہداف پر کھل کر بات کی۔

ان کے بقول اولین مقصد جنگ کو پھیلنے سے روکنا تھا۔ چوتھے دورے کا دوسرا مقصد انہوں نے غزہ میں شہریوں کے لیے امدادی سامان کی ترسیل بڑھانے کو قرار دیا۔ تیسرا ہدف شہریوں کا تحفظ تھا۔
جب وہ شہریوں کے تحفظ کا ذکر کرتے ہیں تو لامحالہ ان کی ترتیب میں غزہ کے فلسطینی آخری درجے میں آتے ہیں۔

وہ اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ کے شہریوں کا تحفظ اسی ترتیب اور ترجیح کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے چوتھے دورہ کا چوتھا مقصد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی بتایا جب کہ پانچواں مقصد اسرائیل کی اس طرح مدد کرنا تھا کہ سات اکتوبر جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔

انہوں نے چھٹے مقصد کو قدرے غیر رسمی انداز میں بیان کیا کہ غزہ کی جنگ ختم ہونے کے بعد کا منظر نامہ اور اس سلسلے میں مشاورت تھی۔

اس چھٹے مقصد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بطور خاص کہا: ’پہلے اور چوتھے دورہ مشرق وسطیٰ میں فرق یہ آیا ہے کہ پہلے جن دو موضوعات پر ہمارے شراکت دار بات کرنے سے ہچکچاتے تھے، اب ان موضوعات پر بات کرنے پر آمادہ تھے۔‘

گویا کہا جا سکتا ہے کہ جن پہلے پانچ نکات کا ذکر اینٹنی بلنکن نے 11 جنوری کو قاہرہ میں کیا وہ سات اکتوبر 2023 سے مسلسل امریکہ کے پیش نظر رہے اور ان پر امریکہ کو کہیں سے کبھی بھی کوئی بڑا چیلنج درپیش نہ ہوا۔

یعنی جو چاہا پا لیا۔ البتہ بعد از جنگ اور بعد از حماس کے سوال پر برف پگھلانے میں امریکہ نے مسلسل تین ماہ کوشش کے بعد وزیر خارجہ کے چوتھے دورہ مشرق وسطیٰ میں کامیابی حاصل کر لی۔

اسی تناظر میں پیش رفت جن کی طرف کم لوگوں کی توجہ گئی، وہ ترکیہ اور اس کے فلسطین کے بارے میں گرم جوش دکھائی دینے والے صدر طیب اردوغان کا ٹھنڈا ہو جانے کا تاثر ابھرنا ہے۔

دوسری جانب قطر کی طرف سے نئی تجاویز میں غزہ سے حماس رہنماؤں کا انخلا بھی شامل کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے تین اہم اہداف کو بھی اگر ذہن میں رکھا جائے تو قطر کی یہ نئی تجویز شامل ہونا معنی خیز ہے۔

البتہ یہ تجویز جس طرح بھی سامنے آئی حماس نے اس کی تردید کی ہے۔
حماس کی تردید اپنی جگہ لیکن اس قطری پیش رفت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کے مسلسل چلے آنے والے اہداف سے بہت قریب کی تجویز ہے۔

جیسا کہ نتن یاہو نے غزہ جارحیت کے حوالے سے اہداف بیان کرتے ہوئے ایک سے زائد بار کہا: ’غزہ سے حماس کا مکمل خاتمہ اور صفایا۔ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے آئندہ کے لیے سات اکتوبر 2023 جیسے خطرات سے نجات پانا۔‘

ان اسرائیلی اہداف کے حصول میں بہرحال اینٹنی بلنکن کا یہ دورہ بھی مفید نظر آتا ہے کہ اس دوران بلنکن کی طرف سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے والی کوئی ایک بات بھی سامنے نہ آئی بلکہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کے لیے سہولت کاری کا ماحول رہا۔

حتیٰ کہ اسی دورے کے اختتام پر امریکہ کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے العربیہ کو ایک خصوصی انٹرویو میں اسرائیل کے حق میں یہ گواہی بھی دے دی کہ ’ایسا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے۔‘

بلاشبہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں کوئی چیز آگے بڑھتی ہے تو اسرائیل کے سب سے بڑے سہولت کار امریکہ سمیت دیگر کئی اہم مغربی ممالک پر بھی زد پڑے گی کیونکہ دنیا میں امریکہ کی طرف سے پچھلی دہائیوں کے دوران یہی اصول اور اسلوب متعارف کروایا گیا کہ دہشت گردی کرنے والے کے ساتھ ساتھ اس کے سہولت کاروں کو بھی پکڑا اور مارا جائے یا کم از کم ان پر پابندیاں ضرور عائد کر دی جائیں۔

اس لیے امریکہ نے عدالتی سماعت کے پہلے روز ہی اسرائیل کے حق میں آواز بلند کر دی۔ اینٹنی بلنکن کے دورے کے دوران بحیرہ احمر میں حوثی حملوں کے خلاف بھی بظاہر مشرق وسطیٰ سے امریکہ کو اس کی پسند کا جواب ہی ملا ہے۔

اس کا اظہار اگلے چند دنوں میں سلامتی کونسل میں حوثیوں سے متعلق کسی پیش رفت سے بھی ہو سکتا ہے، جس کا اشارہ اینٹنی بلنکن نے دیا بھی ہے۔

گویا غزہ کی مکمل تباہی اور 23 ہزار 350 سے زیادہ فلسطینیوں کی اموات کے باوجود امریکہ ہی نہیں، اسرائیل کے لیے بھی علاقے میں فی الحال ’سب اچھا‘ کی رپورٹ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ نو جنوری 2024 کو نیویارک میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہرین کے جذبات کے عوامی اثرات کو امریکہ کیسے روک سکے گا۔

اس مظاہرے کے دوران یہ نعرے بہرحال بڑے معنی خیز تھے کہ ’اسرائیلی فوج، نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ اور کے کے کے (Ku Klux Klan) سب ایک ہی ہیں۔‘

امریکہ کے اندر یہ صورت حال کم از کم جو بائیڈن کے لیے اگلے صدارتی انتخاب تک اچھی نہیں۔ ان کی مقبولیت کا گراف وائٹ ہاؤس میں ہونے کے باوجود نیچے ہے۔

خود ڈیموکریٹس کے اندر امریکہ کی غزہ پالیسی پر واضح تقسیم موجود ہے، اس لیے کہ امریکہ کے اندر مشرق وسطیٰ ہے، نہ مشرق وسطیٰ جیسے تعاون کرنے والے اور وفادار شراکت دار ہیں۔

غزہ کے بارے میں امریکی پالیسی کو اصل چیلنج امریکہ کے اندر سے ہے، جس میں اینٹنی بلنکن کے دورہ مشرق وسطیٰ نے بہرحال کمی نہیں کی۔

مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی سفارتی کوششوں یا کامیابیوں کی قیمت امریکہ کو یوکرین کے حوالے سے روس مخالف اپروچ کے کھاتے میں بھی ادا کرنا پڑے گی۔

یقیناً اس سے یوکرین میں جارحانہ روسی عزائم کو جواز میسر آئے گا۔ اسی طرح مغربی دنیا میں اور مغربی دنیا سے باہر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی انسانی حقوق کی دعوے داری اور لبرل ایجنڈے کی تھانے داری دونوں کی مقبولیت پر زد پڑے گی۔

حماس کا جبری خاتمہ بھی اس بات کی قطعی ضمانت نہیں کہ فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ میں اب ہر طرف چین ہی چین ہو گا کیوں کہ پوری دنیا کے نوجوان اس سے مختلف سوچ کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے