مقبول یا معقول سیاست؟ عاصمہ شیرازی کا کالم
سقراط شعوری اور جمہوری ریاست کا پہلا نمائندہ تصور ہوتا ہے۔ سوال سقراط کا ہتھیار اور سیاسی چار دیواری یعنی polity کی بنیاد بنا۔ سوال، سوال اور سوال فقط آئین تھا اور جوابدہی جدید ریاست کا نظریہ۔ سقراط بہرحال آمریت اور فسطائیت کا پہلا شکار بنا اور زہر کا پیالہ ہاتھ لیے آج بھی سوال کُناں ہے۔
سوال اٹھنا بند ہو جائے تو آمریت جبکہ سوال کا راستہ مسدود ہو جائے تو فسطائیت جنم لیتی ہے۔ ہم دوسرے مرحلے میں آ چکے ہیں جہاں سوال سوچنا جرم اور کہنا گُناہ بن گیا ہے۔
کیا جمہوریت دُنیا کے لیے خواب بنتی چلی جائے گی؟ کیا جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ مقبول فسطائیت سے ہے؟ فسطائیت جمہوریت کو نگل چُکی ہے یا جمہوری نظام نے مقبول فسطائیت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں؟ مقبول فیصلے، مقبول سیاست، مقبول صحافت معقولیت کھو رہے ہیں؟ گذشتہ کئی دنوں سے یہ سوالات ذہن میں کلبلا رہے ہیں۔
سیاست کے طالبعلم کے طور پر جمہوری اکثریتی فیصلوں اور عوامی راج کے علاوہ ذہن میں کوئی اور تصور موجود نہیں مگر عالمی صورتحال اور وطن عزیز کی حالیہ سیاست نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اب جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ کس سے ہے؟ آمریت سے یا مقبول فسطائیت سے؟
فسطائیت، رویے کا نام ہے جو ریاست کا بھی ہو سکتا ہے، سیاست کا بھی، شخصیت کا بھی اور سماج کا بھی۔
عالمی سطح پر جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ آمریت سے نہیں سماجی اور مقبول جمہوری لبادے میں لپٹی فسطائیت سے ہے۔ دھونس، جبر، چُنیدہ انصاف، من پسند انسانی حقوق، شخصیت پرستی اور ذاتی مفاد کو سرمایہ دارانہ اور عالمی سامراج نے عوامی لباس پہنا کر دراصل جمہوریت کو بے آبرو اور برہنہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
معاشرے میں سوال، تنقید، اختلاف رائے کی گنجائش ختم ہو رہی ہے۔ آمرانہ ادوار میں غلیل کے بل پر دلیل کی گنجائش کو ختم کیا گیا ہے اور اب سماج اور سوشل میڈیا کے فسطائی ہتھکنڈے سوال اُٹھانے والے کو کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ مقبولیت معقولیت کو کھا گئی ہے اور سوال کی گنجائش نہ ہونے کے برابر، جبکہ برداشت کا دامن تنگ پڑ چکا ہے۔
مقبول سیاست اور صحافت کا دور ہے جس میں ایک طرف مقتدرہ اور دوسری جانب مخصوص سوشل میڈیائی جنگجوؤں کے درمیان آزادی رائے جنگ لڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
دُنیا ایک نئے نظام کی جانب بڑھ رہی ہے جبکہ ہمارا خطہ اس کا تیزی سے شکار ہوا ہے، امریکہ جیسے ممالک فسطائی ہتھکنڈوں کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والی ریاست انڈیا میں آزادی رائے فقط پڑوسی ملک کے جغرافیے تک محدود ہو گئی ہے۔
عرب اور خلیجی ریاستیں پہلے سے عدم جمہوریت کا شکار ہیں تو اسرائیل کی جارحیت نے یورپی ممالک اور جمہوری لبرل ریاستوں کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔
آئندہ چند ماہ میں دُنیا کی کئی ریاستیں انتخابات کے مرحلے سے گُزریں گی، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد تنہا پلٹن میدان میں خود سے ہی دوڑ لگاتی رہیں۔ اپریل، مئی میں انڈیا انتخابات سے گُزرے گا اور مودی جی کا بھی بظاہر دور تک کوئی مقابل نہ ہو گا جبکہ امریکہ کے صدراتی انتخابات نومبر میں ہوں گے جہاں مقبولیت اور معقولیت کی بحث جاری ہے، یہ سال پوری دُنیا میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن سال ہو سکتا ہے۔
پاکستان بھی دُنیا سے الگ نہیں مگر ہم ایک وقت میں کئی بحرانوں سے گُزر رہے ہیں۔۔ سیاسی، آئینی، معاشی اور معاشرتی بحران جن کا بظاہر حل فقط انتخابات نظر آتا ہے تاہم انتخابات سے قبل اور بعد میں حالات کیا رُخ اختیار کریں گے اس کا اندازہ کسی کو نہیں۔
انتخابات میں ایک ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کو سماجی راہنما اصول اور عوامی منشور دینا ہے اور سیاسی شعور کی ترویج بھی کرنا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں وہ مکالمہ شروع نہیں کر سکیں جس کی اس لمحے پاکستان کو ضرورت ہے۔ یہ انتخابات طے کریں گے کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہے۔ مقبول اور معقول سیاسی نظام کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہی آگے آنا ہے جس کے امکانات تاحال دکھائی نہیں دیتے۔