بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے ’وہ کر دکھایا جو بڑی بڑی سیاسی جماعتیں نہیں کر سکتیں‘

efef88f0-aa5c-11ee-beb5-e1400df560f2.jpg

’ہم کیا اب کھانا بھی اسلام آباد پولیس کی اجازت سے کھائیں؟‘ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ نے حیرانی سے اپنے آس پاس کھڑے میڈیا کے نمائندوں سے سوال کیا۔

یہ ایک دو روز پہلے کی بات ہے جب میرا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ میں جانا ہوا۔

مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اور اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کے لیے کئی روز سے بیٹھے ان لواحقین کے ساتھ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ان کا کھانا روکا گیا ہو لیکن وہاں تعینات پولیس اہلکار کہتے ہیں کہ ’کوئی شرارت کر سکتا ہے اور معاملات خراب کر سکتا ہے۔‘

جبکہ لواحقین پوچھتے ہیں کہ کھانے میں ملاوٹ تو سمجھ آتی ہے لیکن اس کڑکتی سردی میں کیمپ تک کمبل لے جانے میں کیا شرارت ہوسکتی ہے۔

’بچپن کی بس یہی بات یاد ہے کہ کون سے کیمپ جانا ہے‘

احتجاجی کیمپ میں شریک شائستہ بلوچ نے کہا کہ وہ ریاست کے نہیں بلکہ ’بلوچستان مخالف پالیسی‘ کے خلاف ہیں۔ ’میرا ریاست سے بس یہی مطالبہ ہے کہ وہ میرے چاچا اور بھائی سمیت دیگر جبری طور پر اٹھائے گئے افراد کو رہا کر دیں۔ ہمارے غم کا مذاق نہ اڑائیں۔ میں ناامید نہیں ہوں، لیکن تھک گئی ہوں۔‘

اسی کیمپ میں بالاچ مولا بخش کی بہن نجمہ بلوچ بھی آئیں۔ ہاتھ میں اردو میں لکھا ہوا پرچا اٹھائے نجمہ نے کہا کہ ’میری اردو بہت خراب ہے، اس لیے میں لکھ کر لائی ہوں۔ آپ کہو تو پڑھ کر سنا دوں؟‘

جب میں نے انھیں کہا کہ آپ جس زبان میں کہنا چاہیں، بے شک ٹوٹی پھُوٹی اردو میں کہنا چاہیں کہہ دیں۔ اس بات پر وہ مسکراہتے ہوئے رونے لگیں ۔

انھوں نے بتایا کہ وہ مارچ میں اس لیے دیر سے شامل ہوئیں کیونکہ وہ تربت میں اپنے بھائی کی فاتحہ کر رہی تھیں۔ ’میرے بھائی کا کیا قصور تھا؟ میرے بھائی کو پہلے سی ٹی ڈی نے اٹھایا پر اسے واپس چھوڑ دیا۔ ابھی ہم اسی بات پر خوش تھے کہ بالاچ کو واپس اٹھا لیا اور پھر پتا چلا کہ وہ حراست میں مارا گیا۔ یہ تو ماہ رنگ نے ہمارے لیے آواز اٹھائی ہے ورنہ ہمیں کون یاد رکھتا؟‘

گذشتہ سال نومبر کے دوران بلوچستان کے ضلع کیچ میں نوجوان بالاچ بلوچ سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔ ان کا خاندان سی ٹی ڈی کے اس دعوے کی تردید کرتا ہے کہ بالاچ کا تعلق مبینہ طور پر کسی کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے تھا۔

اس کیمپ میں مردوں کے سیکشن میں مزدوروں اور مشقت کرنے والوں کی اکثریت ہے۔ ایک ضعیف بابا نے بلوچی میں اپنا تعارف شاہ جی کے نام سے کرایا اور بتایا کہ ان کا تعلق کوہلو سے ہے۔ ’ہمیں سردار نے دھمکی دی ہے کہ اب واپس کوہلو مت آنا، ورنہ خود ذمہ دار ہو گے۔‘

انھی کے پاس کھڑی ماہ زیب خان نو سال کی عمر سے اپنے چاچا کی بازیابی کے لیے خضدار سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے اب اسلام آباد پہنچ چکی ہیں۔ ’مجھے بچپن کی بس یہی بات یاد ہے کہ کون سے کیمپ میں جانا ہے، کہاں سے کہاں تک مارچ کرنا ہے اور کیسے کوشش کرنی ہے کہ ہماری اردو کا مذاق اڑائے بغیر ہماری بات سنیں۔‘

کیمپ میں جب ماہ رنگ سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس یہ کپڑے اور یہ فون کہاں سے آئے۔ ہمیں ایجنٹ کہا گیا۔ یہ کہا گیا کہ کیا میں دہشتگردی کی مذمت کرتی ہوں۔ کیا میں بی ایل اے کی مذمت کرتی ہوں۔ میں جواب میں یہی کہوں گی کہ مجھے ریاستی دہشتگردی سے اختلاف ہے۔‘

’مجھے یہ پتا ہے کہ ہمارا یہاں آنا ہی بہت سے لوگوں کو کھٹک رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر ہمیں مناسب جواب نہیں ملے گا تو ہم مایوس ہو جائیں گے لیکن سوال کرنا نہیں چھوڑیں گے۔‘

’یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، کسی ایک جماعت کا نہیں‘

حال ہی میں نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک تقریب کے دوران سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’جن لوگوں کو بلوچ مظاہرین سے بہت ہمدردی ہے، وہ جا کر پھر بی ایل اے یا بی ایل ایف جوائن کر لیں تاکہ ہمیں بھی واضح ہوجائے۔‘ انھوں نے کہا کہ جس کو جانا ہے وہ بلوچستان جا کر تحقیقاتی صحافت کرے۔

اس بارے میں سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ انوار الحق کاکڑ کا بیان ’شرمناک اور اشتعال انگیز‘ ہے۔

’انوار الحق کاکڑ نے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی ڈرانے کی کوشش کی۔وہ اتنے بڑے منصب پر فائز ہیں، ان کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں جو۔‘

افراسیاب خٹک نے مزید کہا کہ ’آئین میں لکھا ہے کہ ان (نگران وزیر اعظم) کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہو گا اور وہ ہے انتِخابات لیکن آپ ان کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں، یہ انتخابات کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہتے اس کے علاوہ ہر موضوع پر بات کرتے ہیں۔‘

اب تک انوار الحق کاکڑ یا پھر وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب سے اس بیان پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی جبکہ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق نگران وزیر برائے اطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ وہ بلوچ مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ان کے مطالبات کے منتظر ہیں۔

یہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے بارے میں بات چیت کے لیے اہم وقت ہے۔ ایک جانب تمام تر نگاہیں سپریم کورٹ میں مسنگ پرسنز کے مسئلے پر جاری سماعت پر جمی ہوئی ہیں تو دوسری جانب ماہ رنگ اور دیگر بلوچ مظاہرین احتجاج کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔

افراسیاب خٹک نے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین لمبے عرصے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ دیوالیہ ریاست کی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ لوگ مایوس نہیں بلکہ بہت بہادر لوگ ہیں۔ خاص کر مارچ کی سربراہی کرنے والی ماہ رنگ بلوچ اور سمّی دین بلوچ،اور دیگر خواتین، یہ بہت عزم و الے لوگ ہیں اور میرے خیال میں ان لوگوں نے بڑی کامیابی سے اس مسئلے کو ملک کے دیگر حصوں تک پہنچا دیا ہے۔‘

’جس طرح بلوچ عوام نے اپنا ردّعمل دکھایا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جس طرح سے ان کے حق میں جلسے جلوس نکالے گئے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے مطالبات کو بلوچ عوام کی پذیرائی بھی حاصل ہے۔‘

افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’انھوں نے جو کام کردیا، وہ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں نہیں کرسکتی تھیں۔ ہمیں ان کے عزم کے ساتھ یکجہتی دکھانی چاہیے۔ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں۔
مذاکرات تعطل کا شکار
ماہ رنگ نے ریاست کو بلوچ مظاہرین سے مذاکرات کے لیے سات دن کا وقت دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان سات دن میں ریاست یا حکومت کا کوئی نمائندہ ہمارے پاس مذاکرات کرنے کی غرض سے نہیں آیا بلکہ اسلام آباد پولیس ہمیں بارہا ہراساں کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے پہلے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان بھی کیا تھا۔‘

اسلام آباد پولیس سے جب اس کے بارے میں پوچھا تو ترجمان نے بتایا کہ ’پولیس جتنا ہوسکتی ہے بلوچ مظاہرین کے ساتھ تعاون کررہی ہے لیکن انھیں بھی ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ کوئی تیسرا شرارت نہ کر جائے۔‘

اس پورے معاملے پر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’اسلام آباد یا وفاق کی سوچ آپ نے نگران وزیرِ اعظم کی زبانی سن لی۔ ان کی کہی ہوئی باتیں بہت افسوسناک تھیں۔ اس سے لوگوں میں اشتعال بڑھے گا اور وفاق اور لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔‘

ادھر مرتضیٰ سولنگی یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے کچھ سیاسی گروہ بلوچ مظاہرین کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بلوچ مظاہرین کے دیرینہ مطالبات کے لیے نگران حکومت سے جو ممکن ہوا ’ہم کریں گے۔‘

نگران وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’ہم بلوچ مظاہرین کے پاس خود چل کر گئے اور آئندہ بھی جانے کو تیار ہیں۔‘

دوسری طرف ماہ رنگ بلوچ نے بدھ کو کہا ہے کہ صحیح مذاکرات اس وقت ہوں گی ’جب آپ سنجیدگی دکھائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اب اگلا قدم اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر احتجاج ہو گا

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے