اگر مگر میں اُلجھا پاکستان: عاصمہ شیرازی کا کالم

images.jpg

ہم دیوار کے پیچھے کھڑے ہیں اور آسمان نظر میں لانے کی جستجو ہے۔ بند گلی میں ہیں مگر نگاہیں منزل پر جمانے کی کوشش، ہم مسدود راہوں کے مسافر ہیں مگر زاد سفر ہاتھ نہیں۔

دہائیوں سے نازک دور سے گُزرنے والی مملکت پر اب جب اصل نازک وقت پڑا ہے تو کوئی سمجھنے کو تیار نہیں۔ گردش ایام بدل گئی، ہندسے بدل گئے، تاریخ بدل گئی مگر حالات نہیں بدلے۔ دعا ہے کہ نیا سال اچھا ہو مگر بُرا ہو اس ’مگر‘ کا جو اُمید اور خدشے کے درمیان آ کھڑا ہوا ہے۔

وطن عزیز اگر مگر میں گھِر چکا ہے، سوالات خدشات کا روپ دھارے سامنے آ کھڑے ہیں۔ اس برس معیشت کا کیا حال ہو گا؟ معاشی حالات یہی رہے تو کیا ہوگا؟غربت بڑھ رہی ہے جبکہ بڑھتا افراط زر انسانوں کو سستا کر رہا ہے۔

سیاست میں استحکام اس برس بھی نہ ہوا تو کیا ہو گا؟ ہائبرڈ جمہوریت لنگڑی لولی بھی نہ رہی تو کیا ہو گا؟ انتخابات ہوئے تو کیا، نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ عمران خان اندر رہے تو کیا باہر آئے تو کیا ہوگا؟ نواز شریف باہر نکلے تو کیا خود ساختہ جیل میں رہے تو کیا ہوگا؟
حکومت بن گئی تو کیا ہو گا، نہ چلی تو کیا ہوگا؟ مخلوط حکومت بنی تو کتنا چل پائے گی اور سیاسی استحکام نہ ملا تو کیا ہوگا؟ قومی رہنما اس معاملے پر خاموش ہیں اور دیکھا جائے تو یک طرفہ سیاسی ماحول شبہات بڑھا رہا ہے۔ نواز شریف کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔

خدشات میں اُلجھے یہ سوالات عام ذہنوں میں ہیں یا نہیں مگر فیصلہ سازوں کے ذہن میں ضرور گونج رہے ہیں۔ اب اُنھیں کون بتائے کہ اختیار اور اقتدار کی غلام گردشوں میں پلنے والے سنگین خطرات کو جس مخصوص عینک سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اُس کا نمبر بدل چکا ہے۔
ریاست کو اس بند گلی میں دھکیلنے کے لیے قصور کس کا ہے اس کا جواب پاکستان کے ہر شہری کے پاس ہے اگر کسی کو معلوم نہیں تو صرف ارباب اختیار کو۔۔۔ جو آج بھی چُنیدہ انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہائبرڈ رجیم کے سیاسی کردار کو جیل میں بند رکھا جائے، اُنھیں سیاست سے روک دیا جائے، کارکنوں کو ڈرا دیا جائے مگر اُن کے پیچھے چُھپے عسکری کرداروں کو ’مقدس میوزیم‘ میں چھپا دیا جائے۔ آدھا سچ اور آدھا انصاف مملکت کی جڑوں کو کھوکھلا کر چکا ہے اب تو صرف شکستہ ڈھانچہ ہے جو ہلکے سے اشارے کا منتظر ہے۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک بار پھر اکہتر کی طرح معاشرے میں تقسیم کی خلیج وسیع ہو چکی ہے، اکہتر کے انتخابات طویل آمریت کا نتیجہ بنے اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا، معیشت الگ آخری سانسوں پر، ریاست اور معاشرہ سب بحران کا شکار ہیں۔

یہ بھی محض اتفاق ہے کہ اندرونی محاذ پر لڑتی ریاست کو بیرونی خطرات کا سامنا بھی ہے، مغربی اور مشرقی محاذ پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ پڑوسی انڈیا انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور وہاں سے ’حافظ سعید‘ کی حوالگی کے مطالبے کی ٹائمنگ اپنی جگہ اہم ہے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی پاکستان اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ انتخابات میں کام آئے گا؟

عام انتخابات کے پہلے یعنی کاغذات نامزدگی کے مرحلے کو یقینی طور پر مس ہینڈل کیا گیا اور طاقت وروں کے ساتھ ساتھ تھیٹر لگانے کو تیار کی بورڈ جنگجوؤں نے کامیابی سے عام انتخابات کو متنازعہ بنانے میں بہرحال اپنا کردارادا کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کی ویڈیو گرفتاری کے بعد سمجھنے والوں کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ انتخابات کیمروں کی نگرانی میں ہوں گے۔ ایسے میں مقتدرہ بے بس اور اختیار سوشل میڈیا کا ہی ہو گا۔

بہرحال شاہ محمود کی گرفتاری قابل مذمت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہ جائے، سردار اختر مینگل جیسے رہنماؤں کو بلوچستان کی سیاست سے آؤٹ کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے کہ انتخابات کا منصوبہ کیا ہے۔

اگر آئین پسند سیاستدانوں کو سیاست سے الگ کرنا ہے تو پھر نتیجہ دیوار پر لکھا ہے۔ ایسے میں انتخابات کی ضرورت کیا رہ جائے گی۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے