غزہ کا مستقبل کیا ہوگا؟
تھامس فریڈ مین ایک مغربی صحافی ہیں انھوں نے اسرائیل حماس کے حوالے سے غزہ جنگ کا تجزیہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے شروع دن سے ہی یہ فکر لاحق تھی کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے کسی منصوبہ بندی کے بغیر حملہ کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ امارات میں ایک ہفتہ قیام اور عرب دنیا کے لوگوں کے خیالات اور احساسات جاننے کے بعد میری اس فکر اور تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل پر امریکا اور دیگر اتحادیوں کا شدید دباؤ ہے کہ اسرائیل جلد از جلد اس جنگ کو ختم کرے۔ جب کہ اسرائیل کے مطابق حماس نے غزہ میں زیر زمین سرنگوں کا ایک وسیع نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔
اس لیے وہ ان سرنگوں کا خاتمہ کیے بغیر اس جنگ کو ختم نہیں کر سکتا۔ فریڈ مین کہتے ہیں کہ حماس نے پہلے تو اسرائیل کے خلاف ایک ناقابل یقین حملے کا منصوبہ بنایا اور پھر اس پر پوری شدت سے حملہ کر دیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اسرائیل کو اتنا اشتعال دلایا جائے کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر ایک جنگی مہم کا آغاز کر دے اور اسرائیل نے اس جال میں پھنس کر بالکل ایسا ہی کیا جیسا کہ حماس والوں نے منصوبہ بنا رکھا تھااور ہم آج تک اس کے نتائج کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ہنری کسنجر جنکی حال ہی میں وفات ہوئی ہے انھوں نے بھی بالکل یہی بات کہی کہ اسرائیل نے اس معاملے میں سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں کی مدد حاصل کرنے کے بجائے حماس کے جال میں پھنس کر غزہ پر فوری حملہ کر کے غیر دانشمندانہ اقدام کیا۔
اسرائیل کا پلان یہ تھا کہ حماس کی ملٹری مشین کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے اور اس کی اعلیٰ قیادت کا پوری طرح صفایا کر دیا جائے۔ اسرائیل نے غزہ کے ہزاروں بے گناہ باسیوں کو شہید اور زخمی کیاہے۔
حماس کو اس امر کا بھر پور ادراک تھا کہ ایسا ہی ہوگا اسی لیے اس نے اس پلان کے نتائج کی سنگینی کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک بڑے انسانی المیہ کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے جس کے ازالے کے لیے ہمیں برسوں مل کر غزہ کی تعمیر نو کا کام کرنا ہوگا۔حال ہی میں دی ٹائمز نے انکشاف کیا کہ سیٹلائٹ سے ملنے والی تصاویر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزہ کے ہر کونے میں بھاری تباہی ہوئی ہے۔ کم از کم 6ہزار عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں جس میں سے ایک تہائی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
غزہ کی تعمیر نو اربوں ڈالر کا پروجیکٹ ہوگا اور اس میں کئی برس لگ جائیں گے۔ یہاں عرب دنیا میں ہونے والی میری بات چیت کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی خلیجی ملک رقم سے بھرے بیگ لے کر غزہ نہیں آرہا تاوقتیکہ اسرائیل دو ریاستی حل پر مذاکرات کا وعدہ نہ کرے۔
وال اسٹریٹ جرنل کے ساتھ ایک انٹرویو میں یو این او میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کہا کہ غزہ میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو پر بات کرنے سے پہلے ہمیں دو ریاستی حل کے منصوبے کو قابل عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
ریاض میں سعودی حکام اور پھر امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد جب سے میں یہاں آیا ہوں مجھے جو بات سب سے زیادہ پر امید نظر آئی ہے وہ یہ کہ جب غزہ کی جنگ ختم ہو جائے گی تو مذاکرات کا سلسلہ اسی مرحلے سے شروع ہو گا جو سات اکتوبر کے حملوں سے پہلے جاری تھا۔ سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اسرائیل فوری طور پر غزہ میں جنگ بند کر دے کیونکہ غزہ میں موت اور تباہی سے فلسطینیوں کی نوجوان نسل میں شدت پسندی کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔
عرب ممالک کا خیال ہے کہ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر نیست و نابود نہیں کر سکتا۔ انھیں یہ تشویش ہے کہ ایسا کرنے کی کوشش کے دوران غزہ کو اس قدر نقصان پہنچ جائے گا کہ اس کے بہت ہی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ بلاشبہ میں یہ جانتا ہوں کہ سعودی امریکی اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کا یہ سلسلہ بحال کرنا کتنا مشکل ہوگا خواہ اسرائیل میں کتنی ہی اعتدال پسند حکومت کیوں نہ قائم ہو۔ وہ فی الحال ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی جب کہ اس وقت تو اسرائیل میں انتہائی جنونی عناصر امور حکومت چلا رہے ہیں۔
جو اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ مغربی کنارے کو بھی اسرائیل میں ضم کر لیا جائے اور جو ان میں انتہائی شدت پسند ہیں وہ غزہ کو بھی اسرائیل میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ تباہی کے بعد غزہ ایک ایسا دیو بن کر سامنے آئے گا جو اپنے سینے کے زخموں کو خود ہی چاٹ رہا ہوگا جس سے اسرائیل کو عسکری معاشی اور اخلاقی نقطہ نظر سے بہت نقصان پہنچائے گا اور یہ اس کے سرپرست امریکا کی سپر پاور حیثیت کو بھی متاثر کرے گااور اسے ایک دیر پا نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل اس طویل مدتی سیاسی وژن پر پیش رفت نہیں کرتا کہ دنیا غزہ میں تعمیر نو کے لیے فنڈز دینے پر تیار ہو تو اسے سفارتی اور معاشی میدان میں سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ لیکن اس وقت اسرائیل پر جو مذہبی جنونی دہشت گرد ٹولہ حکومت کر رہا ہے وہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ خالی کروانے پر تلا ہوا ہے دراصل اس کا مشرق وسطیٰ پر مکمل قبضے کا یہ ابتدائی منصوبہ ہے۔