ماہ رنگ بلوچ کون ہیں؟ اور بلوچ یکجہتی مارچ کا مطالبہ کیا ہے ؟ ” رپورٹ "
’نہتی اور پرامن بلوچ ماؤں، بہنوں پر لاٹھی اٹھانا ریاست کے کھوکھلا ہونے کا ثبوت ہے۔۔۔ ریاست یاد رکھے ہم گرفتاریوں اور تشدد سے نہ کمزور ہوں گے اور نہ ہی جدوجہد سے پیچھے ہٹیں گے۔‘
یہ کہنا ہے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا جنھیں بدھ کو رات گئے اسلام آباد پولیس نے دیگر 226 افراد کے ہمراہ حراست میں لیا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ 6 دسمبر کو تربت سے روانہ ہونے والے اس احتجاجی مارچ، جسے بلوچ یکجہتی مارچ کا نام دیا گیا ہے، کا حصہ ہیں جو بدھ کی رات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا تھا۔
لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری کے مطالبات کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پہنچنے والے بلوچ یکجہتی مارچ کے متعدد شرکا کو اسلام آباد پولیس نے رات گئے گرفتار کیا ہے۔
اس مارچ کے شرکا کی جانب سے پولیس پر ’پُرامن مظاہرین‘ پر تشدد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں تاہم پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے بعد گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 226 مظاہرین بشمول خواتین کو چونگی نمبر 26 اور نیشنل پریس کلب کے باہر ہونے والی پولیس کارروائیوں کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شدہ افراد کو تھانہ آبپارہ، تھانہ کوہسار، تھانہ سیکرٹریٹ اور تھانہ مارگلہ منتقل کیا گیا ہے جبکہ خواتین مظاہرین کو ویمن پولیس سٹیشن منتقل کیا گیا ہے۔
بدھ کو رات گئے ماہ رنگ بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا ان سمیت بہت سی خواتین کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اسلام آباد داخل ہوتے ہی مارچ کے شرکا کو پہلے اسلام آباد ٹول پلازہ اور پھر 26 نمبر چونگی پر انتظامیہ کی جانب سے روکا گیا۔ 26 نمبر چونگی پر روکے جانے کے موقع پر ماہ رنگ نے کہا کہ ’ہم اپنے حقوق اور مطالبات کے لیے یہاں آئے ہیں لیکن ہمیں حکومت وقت اور ریاست اسلام آباد میں داخلے تک کی اجازت نہیں دے رہی مطالبات تسلیم کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔‘
بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مارچ اسلام آباد پہنچا تو ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے مظاہرین کو چونگی نمبر26 پر روک لیا۔ جس کے بعد احتجاجی مارچ میں شریک افراد نے وہیں احتجاجی دھرنا دے دیا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’گذشتہ 20 روز سے جاری تحریک نہ رکی ہے نہ رکے گی اور جہاں جہاں سے یہ تحریک گزری ہے وہاں گرفتاریاں کی گئی ہے۔ ہم اس ریاست پر واضح کرتے ہیں کہ نہ ہم گرفتاریوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی تشدد سے پیچھے ہٹیں گے بلکہ آپ کا ہر ایسا قدم ہمیں مزید حوصلہ دے گا اور ہم ریاست کے ہر ایسے عمل کے خلاف مزید شدت سے ابھریں گے۔‘
ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے سے قبل ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کا مطالبہ ہے کہ
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی صدارت میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جائے جو بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹ پیش کرے۔ صوبے میں موجود ڈیتھ سکواڈز کو غیر فعال کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد اور یکجہتی مارچ کے گرفتار ہونے والے شرکا کو رہا کیا جائے۔
خیال رہے کہ بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کو اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پہلے سے جاری احتجاجی دھرنے میں شامل ہونا تھا تاہم اسلام آباد انتظامیہ نے انھیں شہر کے داخلے راستے پر روک دیا۔
ماہ رنگ بلوچ کون ہیں؟
ماہ رنگ بلوچ سنہ 2020 میں اس وقت سب کی توجہ کا مرکز بنی تھی جب صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں طلبا کے آن لائن کلاسز کے خلاف ایک احتجاج کے دوران بولان میڈیکل کالج کے طلبا کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اس احتجاج میں ماہ رنگ بلوچ کو بھی پولیس نے گرفتار کیا تھا اور وہ پولیس وین میں بٹھائے جانے تک اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کر رہی تھی۔
بعد ازاں اسی روز انھیں رہا کر دیا گیا تھا اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بیان جاری کیا تھا کہ ’حکومت نے کسی طالب علم کی گرفتاری کا حکم نہیں دیا تھا۔‘
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ان کا آبائی ضلع قلات ہے۔ وہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے اور سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد عبدالغفار واپڈا میں ملازمت کرنے کے علاوہ مزدور، قوم پرست اور بائیں بازو کی سیاست کرتے تھے۔
ماہ رنگ کا دعویٰ ہے کہ ’سنہ 2006 میں وہ (ماہ رنگ کے والد) پہلی مرتبہ لاپتہ ہوئے جس کے کچھ عرصے بعد وہ واپس آ گئے تھے۔ پھر وہ 2009 میں لاپتہ ہوئے اور 2011 میں ان کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔‘
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ’اس کے بعد ہم سب بہن بھائی والدہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے جہاں کئی سال تک خاموشی سے زیر تعلیم رہے۔ بلوچستان سے طویل عرصے بعد اس وقت میرا رابطہ بحال ہوا جب مجھے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ ملا۔‘
’بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں داخلے کے دوران میں نقاب کیا کرتی تھی اور خاموشی سے پڑھائی کر رہی تھی۔ خیال تھا کہ کسی بھی طرح پہلے اپنی پڑھائی مکمل کر لوں اور پھر اس کے بعد سیاست میں بھی فعال کردار ادا کروں گی۔
2016 میں میرے بھائی کو لاپتہ کر دیا گیا۔ جس پر میں نے اپنا نقاب اُتارا اور احتجاج شروع کر دیا۔‘
ان کے مطابق اُس کے بعد سے وہ طلبا سیاست میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2006 میں جب میرے والد لاپتہ ہوئے تو اس وقت میں پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ اس وقت بھی والد کو بازیاب کروانے کے لیے میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج میں شامل تھی۔‘
’اس احتجاج میں میرے والد کے دوست ذاکر مجید بلوچ نے مجھ سے کہا کہ مجھے تقریر کرنی ہے۔ وہ میری پہلی تقریر تھی۔
’میں جب تقریر کے لیے کھڑی ہوئی تو اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مجھے میرے والد یاد آ رہے تھے۔ والد کو یاد کر کے میں نے رونا شروع کر دیا اور زور زور سے رونے لگی۔ اس موقع پر صرف یہ ہی کہہ سکی کہ
میرے والد کو چھوڑ دیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ذاکر مجید بلوچ نے تقریر کی، وہ بھی لاپتہ ہوئے اور وہ اب بھی لاپتہ ہیں۔
’حق کے لیے احتجاج کے دوران دوپٹے کھینچے جاتے ہیں‘
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ان کی سیاسی تربیت بچپن ہی سے ان کے والد نے کی۔ ’جب 2017 میں بھائی لاپتہ ہوا تو میرے اندر کا سیاسی کارکن بھی بیدار ہو گیا۔‘
بھائی کی گرفتاری کے خلاف جب انھوں نے نقاب اُتار کر سڑکوں کا رُخ کیا تو ’تین ماہ بعد ہمارا بھائی واپس آ گیا۔‘
’میں نے پھر نقاب کر لیا کیونکہ میں نے تعلیم مکمل کرنی تھی۔ ڈاکٹر بننا تھا۔ مگر بلوچستان کے اندر طالبات ویڈیو سکینڈل سامنے آیا جس پر میں چپ نہ رہ سکی اور ایک بار پھر احتجاج میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ پھر وہی سلوک ہوا۔‘
’اس کے بعد فیصلہ کیا کہ اگر حق کے لیے احتجاج کے دوران دوپٹے کھینچے جاتے ہیں اور نقاب اتارے جاتے ہیں تو پھر اب نقاب پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد طلبا سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا جو کہ اب تک جاری ہے۔‘
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کے والد ایک باشعور سیاسی کارکن تھے۔ ’مجھے یاد ہے کہ وہ اکثر و بیشتر ہم سب، ہماری پھوپھپیوں، چچاؤں کو اکٹھا کرتے اور سب کے ساتھ بحث مباحثہ کرتے تھے۔‘
’یہ بحث مباحثہ سیاسی ہوتا تھا اس کے بعد اکثر وہ مجھے وقت دیا کرتے تھے۔ میرے ساتھ بات کرتے، مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ میری سیاسی تربیت کیا کرتے تھے۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ جب حق مانگا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں اکثر و بیشتر ظلم ہوتا ہے اور وہ ظلم برداشت کرنا ہوتا ہے مگر فتح حق کی ہوتی ہے۔‘
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’میرے والد کہا کرتے تھے کہ میں نے پہلے ڈاکٹر بننا ہے اور ساتھ میں سیاست کرنی ہے۔ ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور ان کے لیے مثال بننا ہے اور سیاست کر کے اپنا حق مانگنا ہے۔‘
’مجھے میرے والد صاحب نے سکھایا ہے کہ ظلم کو ظلم کہنا ہے اور میں ظلم کو ظلم کہوں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘