بلوچ یکجہتی مارچ: تربت سے اسلام آباد پہنچنے والے مظاہرین پر پولیس کا لاٹھی چارج، درجنوں گرفتار

b44d6086-e245-4ef0-931d-6ae210294360.jpg

لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری کے مطالبات کے ساتھ بلوچستان کے علاقے تربت سے وفاقی دارالحکومت اسلام پہنچنے والے بلوچ یکجہتی مارچ کے متعدد شرکا کو اسلام آباد پولیس نے رات گئے گرفتار کر لیا ہے۔ شرکا کی جانب سے پولیس پر ’پُرامن مظاہرین‘ پر تشدد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں تاہم پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے بعد گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 226 مظاہرین بشمول خواتین کو چونگی نمبر 26 اور نیشنل پریس کلب کے باہر ہونے والی پولیس کارروائیوں کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شدہ افراد کو تھانہ آبپارہ، تھانہ کوہسار، تھانہ سیکرٹریٹ اور تھانہ مارگلہ منتقل کیا گیا ہے جبکہ خواتین مظاہرین کو ویمن پولیس سٹیشن منتقل کیا گیا ہے۔

مارچ کے متعدد شرکا نے میڈیا  سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس نے پرامن مظاہرین، جو اسلام آباد میں واقع نیشل پریس کلب جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے، پر لاٹھی چارج کیا اور شدید سردی کے موسم میں اُن پر واٹر کینن کی مدد سے پانی پھینکا گیا۔

یاد رہے کہ اس مظاہروں کا تازہ سلسلہ تربت میں بالاچ بلوچ نامی نوجوان کے مبینہ ماورائے قتل کے واقعے کے بعد 6 دسمبر سے شروع کیا گیا تھا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ بالاچ کو دوران حراست ہلاک کیا گیا، تاہم حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔ سی ٹی ڈی بلوچستان نے اپنے ایک اعلامیے میں اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بالاچ ایک مقابلے کے دوران مارا گیا۔

بالاچ کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکت پر احتجاج کے بعد ناصرف سی ٹی ڈی کے چار اہلکاروں پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا تھا۔اس واقعے کے خلاف بلوچستان کے شہر تربت میں کچھ عرصہ احتجاج کے بعد یہ مارچ چھ دسمبر کو تربت سے اسلام آباد پہنچنے کے لیے روانہ ہوا تھا۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کو مبینہ جعلی مقابلوں میں ہلاک کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، بالاچ بلوچ پر سی ٹی ڈی نے جو الزامات لگائے تھے ان کو واپس لیا جائے، بالاچ بلوچ کے قتل کا جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اور بلوچستان کے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اس کے خلاف ماورائے عدالت کارروائی کرنے کے بجائے اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔

تاہم سرکاری حکام کی جانب سے زیر حراست افراد کے قتل جیسے سنگین الزامات کو متعدد مرتبہ مسترد کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کا کہنا ہے کہ بالاچ بلوچ کا تعلق کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے تھا اور انھوں نے تخریب کاری کے 11واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا تھا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے