ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں دہشت گردی کے پس پردہ عوامل

Bsr-Art-2-231219-ایرانی-صوبے-سیستان-بلوچستان-میں-دہشت-گردی-کے-پس-پردہ-عوامل.jpg

گذشتہ ایک سال کے دوران ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں متعدد دہشت گردانہ اقدامات انجام پا چکے ہیں۔ حال ہی میں زاہدان کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے "راسک” میں پولیس ہیڈکوارٹر پر چند دہشت گردوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ایرانی پولیس کے گیارہ افراد شہید ہو گئے۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گرد عناصر کس کی حمایت اور پشت پناہی سے ایسی دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے میں مصروف ہیں؟ اس سوال کا درست جواب پانے کیلئے ہمیں ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے مکانزم کا بغور جائزہ لینا پڑے گا۔ اس بارے میں درج ذیل نکات اہم ہیں:

1)۔ گذشتہ ایک برس کے دوران راسک کا قصبہ ایک باپ اور اس کے بیٹے کی سرگرمیوں کے باعث بدامنی کا شکار رہا ہے جو اتفاق سے اس قصبے میں امام جمعہ کا کردار بھی ادا کرتے آئے ہیں۔ یہ باپ اور بیٹا اس سے پہلے ایک اہلسنت عالم دین کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث تھے جبکہ ان کی جانب سے شدت پسندانہ تکفیری بیانات سامنے آنے کے باعث وہ ہمیشہ سے خبروں کی سرخیاں بنتے رہے ہیں۔ البتہ راسک قصبے میں حالیہ دہشت گردانہ واقعہ جس میں گیارہ پولیس اہلکار شہید ہوئے ہیں ان باپ بیٹے کی حد سے بھی وسیع تر ہے۔ "باپ” مولوی محمد فتحی نقشبندی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا تھا۔ دوسری طرف زاہدان کی مکی مسجد کے خطیب مولوی عبدالحمید نے گرفتاری کے بعد اس کی حمایت کا اعلان کر دیا اور عوام کے سامنے اسے بے گناہ ظاہر کرنے لگا۔

"بیٹا” مولوی عبدالغفار نقشبندی جو اس وقت "عبدالمالک دو” کے نام سے مشہور ہے، بیرون ملک فرار ہو گیا اور ایک نئے دہشت گرد گروہ کی بنیاد رکھ دی۔ اس نے بھی مولوی عبدالحمید کو اپنا مذہبی قائد اور اپنے گروہ کی ریڈ لائن کے طور پر متعارف کروا دیا۔ ان دونوں کی سیاسی اور میڈیا سرگرمیوں نے خطے کے جوانوں پر بہت برا اثر ڈالا اور ان میں تکفیری اعتقادات پروان چڑھنے لگے۔ ان سرگرمیوں کا سادہ ترین نتیجہ گذشتہ چند ماہ کے دوران سیستان بلوچستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس دوران گرفتار ہونے والے تمام دہشت گردوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے یہ دہشت گردانہ اقدامات مولوی عبدالحمید اور مولوی عبدالغفار نقشبندی کے خیالات و افکار سے متاثر ہو کر انجام دیے ہیں۔

2)۔ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا دوسرا مکانزم ایران کے باہر انجام پا رہا ہے۔ بیرون ملک انقلاب دشمن عناصر نے سب سے پہلے گذشتہ ایک سال کے دوران مولوی عبدالحمید کو لائن دینے پر کام کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مولوی عبدالحمید کو ایران میں "عورت، زندگی، آزادی” کے عنوان سے شروع ہونے والے فتنہ انگیز منصوبے میں شامل کیا۔ ایران سے باہر بیٹھے انقلاب دشمن عناصر نے ایم کے او (مجاہدین خلق آرگنائزیشن)، جیش العدل اور عبدالغفار نقشبندی نیز پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد کمانڈر حبیب اللہ سربازی کو ایک پیج پر اکٹھا کیا اور انہیں مشترکہ ٹاسک دینا شروع کر دیا۔ یوں انقلاب دشمن عناصر کی جانب سے یہ منحوس ٹرائیکا معرض وجود میں آئی اور انہوں نے منظم انداز میں سیستان بلوچستان میں دہشت گردی کا آغاز کر دیا۔

3)۔ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے والا تیسرا مکانزم امریکہ، یورپ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی پر مشتمل ہے۔ سی آئی اے، موساد اور چند یورپی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے مل کر پہلے اور دوسرے مکانزم کو مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ یہ منحوس ٹرائیکا درحقیقت مذکورہ بالا دہشت گرد گروہوں کی ٹرائیکا کی مالی، انٹیلی جنس اور دہشت گردی کی ٹریننگ کے سلسلے میں مدد کرنے میں مصروف ہے۔ آج جب اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم غزہ میں اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں شدید نقصان برداشت کرنے میں مصروف ہے تو ان عناصر کیلئے ایران کے اندر بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کا مناسب ترین وقت تصور کیا جاتا ہے۔

4)۔ اب آئیں دوبارہ راسک میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدام کا جائزہ لیں۔ سیستان بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں اور اس میں ملوث طاقتیں اگرچہ مختلف کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں لیکن پس پردہ ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں۔ ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا دائرہ حالیہ دہشت گردانہ اقدام سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور اسے محض ایک پولیس ہیڈکوارٹر پر دہشت گردانہ حملے میں محدود کر دینا سادہ لوحی ہو گی۔ اس بارے میں جیش العدل کے دہشت گردوں کی گرفتاری سادہ ترین کام دکھائی دیتا ہے۔ لہذا ایران اس وقت ایک ہائبرڈ جنگ سے روبرو ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی انتہائی پیچیدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے