افغان جہاد، جمی کارٹر کا فتوی اور امریکہ کی نصرت”کالم "

349871_1361149_updates.jpg

28 دسمبر 1979 کو اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کو ان کے دفتر میں افغانستان پر روسی حملے کے حوالے سے ایک طویل بریفنگ دی گئی۔ جس کے بعد ان سے اجازت لی گئی کہ امریکہ روس کے خلاف افغان جنگجووں کی مالی اور مہلک ہتھیاروں سے مدد کرے گا۔ جو جنگجو اس جہاد میں حصہ لیں گے ان کی تربیت پاکستان میں کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے 2.1 ارب ڈالر امریکہ سی آئی اے کے ذریعہ پاکستان کو دے گی اور اتنے ہی پیسے سعودی عرب کے ذریعہ دیے جائیں گے۔اس جہاد کے لیے مہلک ہتھیار فراہم کیے جائیں گے۔

یہ ساری باتیں واشنگٹن میں 14 دسمبر 2023 کو اس وقت سامنے آئیں جب امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی آرکائیو نے جمی کارٹر کی صدارت کے دورانیہ کے دستاویزات کو ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کیا۔ اس مجموعہ میں اس کے علاوہ بھی کئی ایک انکشافات ہیں۔ ایران اور چین کے حوالے سے بھی بہت زیادہ انکشافات ہیں۔ اس مجموعہ سے امریکی کی خارجہ پالیسی کے تسلسل کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

افغانستان پر روس کی یلغار کے بعد جو جنگ چھڑی اس کو ہم افغان جہاد کا نام دیتے ہیں اور اس جنگ میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں مسلسل بد امنی رہی، پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار ہوا، پاکستان کی معیشت تباہ ہو گئی۔ پاکستان اسلحہ اور منشیات کا گڑھ بن گیا۔ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افغانوں کو پاکستان نے پناہ دی جس کی وجہ سے پاکستان کے دو صوبے اخلاقی، مالی، تعلیمی اور انتظامی طور پر مکمل تباہ ہو گئے۔

اس جنگ کی وجہ سے پاکستان میں جدید تعلیم کی جگہ جہادی تعلیم پر زیادہ سرمایہ اور توجہ صرف کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کے دیگر ممالک معاشی اور مواصلاتی اور اقتصادی ترقی کر رہے تھے۔ اور پاکستان امریکہ کی خوشنودی کے لیے جہادیوں کا کارخانہ بنا ہوا تھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں آج تک پاکستان اپنے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دینے کے قابل نہیں رہا۔

اور آج امریکن نیشنل سیکیورٹی آرکائیو کے کاغذات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سب تو امریکہ سرکار کی خوشنودی کے لیے تھا۔

اس جنگ کا اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ امریکہ کے ان کوششوں کا حصہ تھا جس میں اس نے روس کو کمزور کر کے خود کو دنیا میں اکیلا سپر پاور بنانا تھا۔

اس جنگ میں صرف افغانوں نے شرکت نہیں کی بلکہ پوری مسلم دنیا سے پینتیس ہزار سے زیادہ جہادیوں کو افغانستان لایا گیا۔ اور اس کے علاوہ لاکھوں پاکستانیوں خصوصاً پاکستانی قبائل نے بھی اس جنگ میں براہ راست حصہ لیا۔ اس جنگ کے لیے اسلامی جہادیوں کو تیار کیا گیا اور روسیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے اخراجات امریکہ نے اٹھائے۔

جس کے نتیجے میں صرف دس برس میں ہی روس جنگی اور معاشی طور پر اتنا کمزور ہو گیا کہ روسی افواج کو افغانستان چھوڑنا پڑا اور گورباچوف کو سویت یونین کا بھی خاتمہ کرنا پڑا اور آرمینیا، آذربائیجان، بیلاروس، ایسٹونیا، جارجیا، قازقستان، کرغزستان، لٹویا، لتھوانیا، مالڈووا، تاجکستان، ترکمانستان، یوکرین، اور ازبکستان کو آزادی دینا پڑی۔ اسی افغان جہاد کی وجہ سے سویت یونین بلاک کے کئی ممالک کو بھی اپنی کمیونسٹ اپروچ کو چھوڑنا پڑا۔

اور امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ جس کے بعد نوے کی دہائی میں امریکن اور ان کے اتحادیوں نے اس فتح کا جشن منایا اور افغانستان کو خانہ جنگی کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی دور افتادہ مقام پر کوئی اجتماع منعقد کیا جائے۔ اس اجتماع کے لیے وہاں چند دنوں کے لیے ساری سہولیات فراہم کی جائیں اور اجتماع کے خاتمے پر سب کچھ اکھاڑ کر لے جائیں اور سارا گند وہاں چھوڑ دیا جائے۔

اس جنگ کا ایک پہلو جس پر عموماً کوئی بات نہیں کرتا وہ یہ ہے کہ اس جنگ کے لیے عربوں کو استعمال کیا گیا۔ جس میں نمایاں نام اسامہ بن لادن کا ہے جو اسی کی دہائی میں اس جنگ کو کامیاب بنانا کے لیے امریکہ اور یورپ کا دورہ کرتے رہے

اور عرب افرادی قوت کے ساتھ اس جنگ میں بہت زیادہ سرمایہ بھی لگاتے رہے۔ امریکن ساختہ جہاد کا یہ نمائندہ سوڈان اور دیگر عرب ملکوں سے ہزاروں عربوں کو افغانستان لے کر آیا مگر نوے کی دہائی میں جب روسی افواج نے افغانستان سے واپسی کی تو اس کے بعد اس کی اور دیگر عربوں کی وہ اہمیت ختم ہو گئی جو افغان جہاد کے دور میں ان کو حاصل تھی۔

نوے کی دہائی میں افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوا اور وہ سب جہادی جو متحد ہو کر روسیوں کے خلاف لڑ رہے تھے آپس میں برسرپیکار ہو گئے اور کابل کی گلیوں میں اتنا خون بہا کہ روسیوں کے ساتھ جنگ میں بھی اس کا تصور ممکن نہیں تھا۔ افغانستان کے ہر صوبہ میں الگ الگ شخصی جہادیوں کی حکومت قائم ہو گئی اور افغانستان لسانی اور علاقائی گروہ بندیوں کا شکار ہو گیا۔ وہ مجاہدین جو دنیا سے جمع کر کے لائے گئے تھے ان میں سے کچھ اپنے اپنے ملکوں میں گئے اور وہاں جہاد کی پریکٹس کرنے لگے۔

الجزائر، سوڈان، صومالیہ، مصر اور کئی دیگر ممالک میں جاکر ان جہادیوں نے اپنی پریکٹس جاری رکھی مگر امریکن ساختہ جہاد کے لیے مسلسل ڈالروں کی ضرورت تھی۔ جو ان کو وہاں پر دستیاب نہیں تھے اس لیے ان کی پریکٹس چند ہی برسوں میں دم توڑ گئی۔ مگر افغانستان اور پاکستان میں ان کو ڈالرز مسلسل ملتے رہے اس لیے یہ ان علاقوں میں تاحال زندہ ہیں۔ اس جہاد سے امریکہ کی سپورٹ اور ڈالر ہٹا لیے جائیں تو یہ جہاد ختم ہو سکتا ہے۔

امریکہ نے جو کچھ کیا وہ راز نہیں رہتا۔ کچھ عرصہ بعد وہ ان دستاویزات کو عوامی رسائی میں دے دیتے ہیں جن کو کسی زمانے میں خفیہ کہا جاتا تھا۔ یہ تو ایک دستاویز سامنے آئی ہے جس میں افغان جہاد شروع کرنے لیے امریکی امداد اور منصوبہ بندی کا ذکر ہے۔

اس کے بعد جو خفیہ دستاویزات سامنے آئیں گی ان میں جو کچھ ہو گا۔ وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو گا کہ کیسے ہم نے امریکہ کی خوشنودی کے لیے اپنے ملک اور اس کی سلامتی کو داؤ پر لگایا۔

کیسے ہم نے لاکھوں انسانوں کی بلی چڑھائی۔ کیسے ہم نے اس خطے کو ترقی سے دور رکھا۔ اس ملک میں جہالت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی یہاں کے انسانوں کو چند مذہبی لوگوں اور حکومتوں کو استعمال کر کے کچھ بھی کروا سکتا ہے۔ یہ وہ سارے عوامل ہیں جس کی سبب سے یہ خطہ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں ترقی اور تعلیم کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ لامحدود وسائل رکھنے کے باوجود اس ملک کو کھربوں ڈالرز کا مقروض بنایا گیا۔ چالیس برس سے زیادہ افغانستان کا بوجھ بھی اس ملک کے وسائل پر ڈالا گیا اور اس کا فائدہ چند ہوس پرست اور وطن فروشوں کو ہی ہوا اور وہ سارے لوگ اب امریکہ میں عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

آج انہیں نہ تو مذہب یاد ہے نہ وطن۔ یہ لوگ اس ملک میں ایک ایسا کلچر چھوڑ گئے ہیں کہ اب ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ وہ بھی اس ملک کا نقصان کر کے، مذہب کا استعمال کر کے پیسہ کمائے اور کسی نہ کسی طرح اس ملک کو چھوڑ جائے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی مثال لے لیں جہاں ان چیزوں اور کلچر کے نہ ہونے کی وجہ سے صنعتی، معاشی، تعلیمی، اقتصادی اور مواصلاتی ترقی کا دور دورہ ہے۔ افغان جنگ میں جہادیوں کی فراہمی کے جو کارخانے لگائے گئے تھے۔

ان کو ابھی تک مکمل بند نہیں کیا گیا اس لیے اس خطے میں ابھی تک امن قائم نہیں ہوسکا۔ ایک کا زور توڑنے کے لیے دوسرے کی پرورش کا تجربہ بھی سود مند نہیں ہے اس لیے کہ ایسے گروہوں کو مستقل نہیں پالا جاسکتا اور یہ گروہ کسی کے بھی وفادار نہیں ہوتے۔ یہ آسانی کے ساتھ دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوسکتے ہیں اور اس کا تجربہ ہمیں گزشتہ کچھ برسوں میں ہو چکا ہے۔ وہ افغانستان جس کے لیے ہم نے اپنے ملک کو تباہ کر دیا ہے وہ آج ہم سے زیادہ پرامن اور خوشحال ہے۔

اور وہ اس وقت ہماری دشمنی میں بھی سب سے آگے ہے۔ وہ اب روسیوں کو اپنے دوست اور پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ لاکھوں افغانی جو امریکہ اور یورپ میں پاکستان کی مدد سے آباد ہوئے ہیں وہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے مشین ہیں جو یورپ اور امریکہ میں پاکستان کے امیج کو بری طرح خراب کر رہے ہیں۔ جس کا نقصان ان پاکستانیوں اور کاروباری لوگوں کو ہو رہا ہے جوان ممالک میں ہیں یہ ان سے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان اب ان تمام لوگوں کی آماج گاہ ہے جو پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں یا سازشیں کر رہے ہیں۔

پاکستان افغانستان کی وجہ سے سمگلنگ جیسے مصیبت سے دوچار ہے جس نے مقامی صنعتوں کو یہاں پنپنے ہی نہیں دیا۔ افغانستان میں روس اپنا بدلہ لینے کے لیے پھر سے امریکی مفادات کے خلاف محاذ کھولے گا۔ اور امریکہ چین کا اقتصادی راستہ روکنے کے لیے پھر افغانستان کو استعمال کرے گا۔ اور اس مرتبہ بھی وہ اسے جہاد کا نام دیں گے۔

مشتری ہوشیار باش! ایسا نہ ہو کہ آنے والے افغان جہاد کے لیے بائیڈن کا فتوی اور امریکہ کی نصرت آئے اور ہم پھر سے جہاد کی فیکٹریاں کھولنا شروع کر دیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے