کیا اقوام متحدہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے؟

330616-724453266.jpg

لیگ آف نیشنز کی طرح کیا اقوام متحدہ بھی اپنی طبعی عمر مکمل کر چکی ہے اور کیا اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک نئے عالمی نظام کے قیام پر غوروفکر شروع کر دے؟

اقوام متحدہ کی سب سے بڑی خرابی اس کی تعمیر میں مضمر ہے۔ بظاہر یہ اقوام عالم کا مشترکہ فورم ہے، جہاں تمام ریاستیں برابر ہیں لیکن عملاً یہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین کا بندوبست ہے جہاں جارج آرویل کے ’اینیمل فارم‘ کی طرح کچھ اقوام کچھ زیادہ برابر ہیں۔

یہی خرابی لیگ آف نیشنز میں بھی تھی۔ بظاہر وہ بھی بین الاقوامی ادارہ تھا لیکن سامنے کی حقیقت یہ تھی کہ وہ بھی پہلی عالمی جنگ کے فاتحین کا قائم کردہ بندوبست تھا۔

اسی وجہ سے سے لیگ آف نیشنز بھی ناکام ہوئی اور یہی وہ خرابی ہے جس نے اقوام متحدہ کو بھی لاچار اور بے بس کر دیا ہے۔

ان دونوں اداروں کے زیرانتظام جو بین الاقوامی قانون بنا وہ بھی اپنی اصل حالت میں بین الاقوامی نہیں ہے، اس پر بنیادی طور پر مغربی اقوام کی فکر کار فرما رہی ہے۔ ان ہی مغربی اقوام کے باہمی معاہدے درجہ بدرجہ بین الاقوامی قانون کہلائے اور اس قانون کی صورت گری میں دو تہائی سے زیادہ دنیا کا سرے سے کوئی کردار ہی نہ تھا۔

اقوام متحدہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارہ انصاف اور برابری کے اصول پر نہیں کھڑا بلکہ یہ کنگ الفریڈ کے قدیم انگلستان کی طرح جاگیردارانہ خطوط پر استوار ہے۔

اقوام متحدہ نے دنیا کو پانچ بڑے جاگیرداروں میں تقسیم کر رکھا ہے اور انہیں ویٹو پاور دے رکھی ہے۔.

جنرل اسمبلی میں اقوال زریں کی حد تک ساری اقوام برابر ہیں لیکن سلامتی کونسل میں جہاں عملی اقدامات لینے ہوتے ہیں وہاں سب برابر نہیں ہیں۔ وہاں پانچ عالمی جاگیردار ضرورت سے زیادہ برابر ہیں اور باقی کی دنیا ان کے مزارعین پر مشتمل ہے۔

اقوام متحدہ کا امن اور انصاف کا تصور یہ نہیں ہے کہ دنیا میں ایک عادلانہ نظام قائم ہو بلکہ اس کا امن اور انصاف کا تصور یہ ہے کہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کوئی خفا نہ ہو۔ یہ پانچ قوتیں باہم ٹکرا نہ جائیں، اس کا نام عالمی امن اور سلامتی ہے۔ باقی کی دنیا چاہے خون میں نہا جائے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔

چنانچہ کسی بھی ملک کے خلاف اس وقت تک طاقت استعمال نہیں کی جا سکتی جب تک یہ پانچوں ملک متفق نہ ہو جائیں۔ ان میں سے کوئی ایک ملک بھی ویٹو کر دے تو پھر چاہے ساری دنیا ایک طرف ہو، پھر چاہے فلسطین میں نسل کشی ہوتی رہے اور چاہے جنرل اسمبلی بار بار قراردادیں لاتی رہے، سلامتی کونسل طاقت استعمال نہیں کر سکتی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قانون کی عمل داری سے محروم قدیم جاگیردار معاشروں کی طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ کسی بھی کمزور اور محکوم ملک کے لیے اقوام متحدہ اور اس کا قانون سہارا نہیں بن سکتا۔

ریاستوں کے لیے امان اب اسی میں ہے کہ وہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کسی ایک کی سرپرستی میں آ جائیں۔ ویٹو پاور کا حامل ملک پشت پر کھڑا ہو تو اقوام متحدہ اور عالمی قانون آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

مسلم دنیا کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے

 

چونکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں مسلمان دنیا شکست خوردہ تھی، اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کو ویٹو سے محروم رکھنا محض اتفاق ہے یا اس میں کچھ اہتمام بھی شامل ہے؟

اپنی بنیادی ساخت کی اس کمزوری کو، اقوام متحدہ اپنے طرز عمل سے دور کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ عراق جیسے ملک سے معاملہ ہو تو اقوام متحدہ کی دو قراردادووں کی پامالی پر اسے روند دیا جاتا ہے اور اسرائیل جیسے ملک سے واسطہ پڑ جائے تو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی ڈھیروں قراردادوں کی پامالی کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا اور اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔

اسی طرح خود اقوامِ مغرب کا طرز عمل بھی یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کو صرف وہاں خاطر میں لاتے ہیں جہاں ان کے مفاد کا تقاضا ہو۔ جہاں ان کا مفاد کسی اور چیز کا تقاضا کرے، یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے ضابطوں کو پامال کر دیتے ہیں بلکہ یہ متبادل راستے بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی مسلمہ بین الاقوامی قوت کے ہوتے ہوئے نیٹو کے ذریعے کارروائیاں کرنا اور اقوام متحدہ سے بالاتر ایف اے ٹی ایف کا عالمی مالیاتی نظام وضع کرنا اسی متبادل کی علامات ہیں۔

لیگ آف نیشنز سے اقوام متحدہ تک، ان دونوں اداروں کی عدم فعالیت، یک رخی اور تضادات کا حاصل یہ ہے کہ اب دنیا کو ایک نئے ادارے کی ضرورت ہے۔

ایک ایسا ادارہ جو عالمی جنگ کے فاتحین کا کلب نہ ہو بلکہ اقوام عالم کا حقیقی نمائندہ ادارہ ہو، جہاں کچھ اقوام کے ہاتھ میں ویٹو کی اندھی طاقت نہ ہو بلکہ تمام اقوام کو یکساں عزت اور توقیر حاصل ہو اور جس کا ’انٹر نیشنل لا‘ کسی خاص تہذیبی فکری بالادستی کا مظہر نہ ہو بلک اس کی بنیاد دنیا بھر کی اجتماعی دانش پر رکھی گئی ہو۔

یہ کوہ کنی بہت مشکل سہی لیکن ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو تیشہ اٹھانا ہی پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے