فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے فلسطینی بچے
درجنوں فوجی آدھی رات کو حملہ کرتے ہیں، زبردستی گھروں میں گھستے ہیں، بچوں کا پوچھتے ہیں اور اپنی رائفلوں کے زور پر بچوں کے کمروں میں جا کر انھیں جگاتے ہیں اور ساتھ لے جاتے ہیں۔‘
فلسطین میں انسانی حقوق کے وکیل خالد قزمر نے اِن الفاظ میں کم عمر فلسطینی بچوں کو حراست میں لے جانے کے واقعات کا احاطہ کیا۔
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل (فلسطین) کے سربراہ خالد قرمز نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد ان بچوں کو تفتیشی مراکز میں لے جایا جاتا ہے، جہاں تفتیش کے عمل کے دوران اُن کے ساتھ خاندان کے افراد یا وکیل نہیں ہوتے۔
خالد قرمز کے مطابق ’وہاں انھیں (کم عمر بچوں) نفسیاتی اور بعض اوقات جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بہت سے لوگ دباؤ میں ان جرائم کا اعتراف کرتے ہیں جو انھوں نے کیے ہی نہیں ہوتے۔‘
تاہم اسرائیل کے محکمہ جیل خانہ جات (آئی پی ایس) نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان الزامات سے لاعلم ہیں اور قیدیوں اور زیرحراست افراد کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ اگر انھیں کسی حوالے سے شکایت ہے تو وہ شکایت درج کروائیں جس پر حکام شکایت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
کم عمر فلسطینی بچوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ سلوک کئی بین الاقوامی تنظیموں جیسا کہ ’سیو دی چلڈرن‘ یا خود اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطین (یو این آر ڈبلیو اے) کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے یہ کم عمر فلسطینی بچے جسمانی اور جذباتی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے چار (86 فیصد) بچوں نے مار پیٹ کی شکایات کی، 69 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں تلاشی لینے کے بہانے برہنہ کر دیا گیا اور تقریباً نصف بچوں نے بتایا کہ گرفتاری کے وقت ہونے والے تشدد کے باعث وہ زخمی ہوئے، کچھ کو گولیاں لگیں اور کچھ کی ہڈیاں ٹوٹیں۔
فوجی عدالتیں
واضح رہے کہ غزہ کا مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس اسرائیلی فوج کے زیر قبضہ ہیں اس لیے ان علاقوں میں گرفتار ہونے والے فلسطینیوں کو فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس عمل میں عمر کی کوئی تخصیص نہیں یعنی کم عمر بچوں یا 18 سال سے کم عمر گرفتار شدہ افراد کا ٹرائل بھی انھی فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے۔
سیو دی چلڈرن کے مطابق فلسطینی بچے دنیا کے واحد بچے ہیں جن پر ’منظم طریقے سے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔‘
تنظیم کا اندازہ ہے کہ گذشتہ 20 برسوں کے دوران اسرائیل کے فوجی حراستی سسٹم کے تحت تقریباً 10 ہزار کم عمر فلسطینی بچوں کو قید کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے بی بی سی کو بتایا کہ ان (اسرائیلی) فوجی عدالتوں کی تشکیل ’چوتھے جنیوا کنونشن‘ میں دی گئی گائیڈ لائنز کے عین مطابق ہے اور ان کی اس ضمن میں کارروائیاں بین الاقوامی قانون کے تحت تمام متعلقہ ذمہ داریوں کی تعمیل کرتی ہے۔
اسرائیل میں کسی جرم کی ذمہ داری عائد کرنے کی مد میں کم از کم عمر 12 سال ہے، یعنی 12 سال کے بچے پر اس کے کیے جرم کے ردعمل میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم خالد قزمر کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج میں رائج قانون کسی بھی عمر کے فلسطینی کی گرفتاری کی اجازت دیتا ہے۔
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی رپورٹس کے مطابق ان کے سامنے چھ سال کی عمر کے بچوں کے بھی کیسز سامنے ہیں جنھیں حراست میں لیا گیا اور پانچ چھ گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔
بغیر کسی الزام کے گرفتار
بیشتر فلسطینیوں کی مانند اسرائیلی فوج کی طرف سے حراست میں لیے گئے بہت سے بچوں کو بھی کسی جرم کا باقاعدہ الزام لگائے بغیر انتظامی حراست میں رکھا جاتا ہے جس کے تحت انھیں مہینوں جیل میں مقید رکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ احام نہالہ کے ساتھ ہوا جنھیں بغیر کسی الزام کے 14 ماہ جیل میں گزارنے پڑے جس کے بعد حال ہی میں یرغمالیوں کے تبادلے میں ان کو رہائی نصیب ہوئی۔
نہالہ ان 169 کم عمر فلسطینوں میں شامل تھے جو اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے دوران رہا کیے گئے تھے۔
فلسطینی قیدیوں کی رہائی ان اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے نتیجے میں سامنے آئی جنھیں سات اکتوبر کو عسکریت پسند گروہ حماس نے اپنے حملے کے دوران اغوا کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے فلسطین (UNRWA) نے ایک اور لڑکے، امل معمر نخلیح سے متعلق بھی آگاہ کیا ہے جو قوت مدافعت کی ایک نادر بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود بغیر کسی الزام کے ایک سال تک اسرائیلی فوج کی حراست میں رہا۔
اقوام متحدہ کے مطابق ’جیل میں امل سے ملاقات اور اس کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے تک ان کی رسائی بہت محدود ہے۔‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق نابالغوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد ان کی اپنے اہل خانہ تک رسائی انتہائی محدود ہوتی ہے۔
سیو دی چلڈرن نے یقین دلایا ہے کہ اسرائیلی حکام کی طرف سے فلسطینی بچوں پر عائد کیے گئے اقدامات میں قانونی نمائندگی اور ان کے اہل خانہ سے ملنے سے انکار بھی شامل ہے۔
اسرائیل نے بی بی سی کو یقین دہانی کروائی کہ غرب اردن میں قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے انتظامی اور مجرمانہ طریقہ کار میں نابالغوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں جس میں گرفتاریاں، تفتیش، استغاثہ اور نابالغوں کی سزا سے متعلق تمام امور شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے 2013 میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج کی حراست میں بچوں کی نظر بندی کے لمحے سے لے کر بچے کے خلاف مقدمہ چلانے اور بالآخر سزا پانے تک کے تمام مراحل میں بڑے پیمانے پر بدسلوکی منظم اور ادارہ جاتی تھی۔
اس انکشاف کے سامنے آنے کے بعد سے تنظیم نے صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کے لیے اسرائیلی حکام کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق فوجی حراست بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات بھی چھوڑ جاتی ہے۔
2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے تقریباً نصف افراد نے سیو دی چلڈرن کو بتایا کہ وہ رہا ہونے کے بعد اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس آنے سے قاصر ہیں۔
18 سالہ نوجوان محمد نازل کو تین ماہ سے زائد انتظامی حراست کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کی بدولت رہا کیا گیا۔ انھوں نے بی بی سی کی رپورٹر لوسی ولیمسن کو بتایا کہ جیل سے نکلنے سے پہلے انھیں جسمانی استحصال کا سامنا کرنا پڑا جس سے ان کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے۔
لیکن نقصان صرف یہیں تک نہیں محدود نہیں بلکہ نقصان ناقابل تلافی ہے۔
محمد کے بھائی معتز نے ٹوٹے دل کے ساتھ بتایا ’اب میرا بھائی وہ محمد نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے۔ اب اس کا دل ٹوٹ گیا ہے اور خوف سے بھرا ہوا ہے۔